روسی شیلنگ کے بعد یورپ کے سب سے بڑے پاور پلانٹ میں آتشزدگی
روسی فورسز کے یوکرین میں توانائی پیدا کرنے والے اہم شہر میں حملے جاری ہیں جہاں یورپ کا سب سے بڑا پاور پلانٹ نشانہ بنا اور آگ لگنے کے بعد متاثرہ اسٹیشن سے تابکاری کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
خبر ایجنسی 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق پلانٹ کے ترجمان اینڈری تز نے یوکرینی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ شیل براہِ راست انرہوڈر شہر میں زپوزیہیا میں پلانٹ پر گر رہے تھے، جس کے نتیجے میں 6 میں سے ایک ری ایکٹر میں آگ لگی۔
مزید پڑھیں: روس نے یوکرین کے اہم شہر 'خرسون' کا کنٹرول حاصل کرلیا
انہوں نے کہا کہ اس پلانٹ کی مرمت جاری تھی اور فعال نہیں تھا لیکن اس کے اندر جوہری ایندھن موجود ہے۔
حکومتی عہدیداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پلانٹ کے قریب تابکاری کا علم ہوا ہے جو تقریباً 25 فیصد یوکرین کو بجلی فراہم کرتا ہے۔
اینڈری تز نے کہا کہ فائر فائٹرز شعلوں کے قریب نہیں جاسکتے کیونکہ وہ اب بھی وہاں فائرنگ کر رہے ہیں۔
یوکرینی وزیر خارجہ دیمترو کولیبا نے ٹوئٹ میں روسی افواج سے درخواست کی کہ حملے روکیں اور فائر ٹیم کو اندر جانے کا موقع دیں۔
اینڈری تز نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’ہم نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ بھاری ہتھیاروں کی فائرنگ بند کریں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کے نتیجے میں یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ میں جوہری خطرات کا خدشہ ہے۔
اس حملے نے ان خدشات کو تازہ کردیا کہ اس کے نتیجے میں یوکرین کے 15 جوہری ری ایکٹر میں سے ایک کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور 1986 کے چرنوبل حادثے کی طرح ایک بار پھر ہنگامی حالات پیدا ہو سکتے ہیں، جو دنیا کی بدترین جوہری تباہی تھی، وہ حادثہ دارالحکومت سے تقریباً 110 کلومیٹر شمال میں پیش آیا تھا۔
انر ہوڈر کے میئر نے کہا کہ یوکرینی افواج شہر سے باہر روسی فوج سے جنگ لڑ رہی ہیں، ویڈیو میں آتشزدگی اور سیاہ دھواں اٹھتے دیکھا جاسکتا ہے اور لوگ تباہ شدہ کاروں کے پیچھے سے گزر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اگر یوکرین پر قبضہ ہوا تو اگلا نمبر یورپی ممالک کا ہو گا، ولادیمیر زیلنسکی
یاد رہے ایک روز قبل ہی اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کی جانب سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ جھڑپوں سے یوکرین کے 15 جوہری ری ایکٹرز کو حادثاتی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔
یوکرینی جوہری توانائی کی کمپنی نے اطلاع دی ہے کہ روسی افواج کا رخ جوہری پلانٹ کی طرف ہے جہاں فائرنگ اور راکٹوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
انرجو ایٹم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ایتھلیٹس کے لباس میں مسلح جوان کلاشنکوفوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے دروازے توڑتے ہوئے مقامی افراد کے اپارٹمنٹس میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
روسی افواج کی پیش قدمی
دوسری جانب روسی فورسز نے ملک کو سمندری راستوں سے منقطع کرنے کے لیے پیش قدمی کرلی ہے جبکہ یوکرینی رہنماؤں نے کہا کہ شہری اٹھیں اور حملہ آوروں کے خلاف گوریلا جنگ لڑیں۔
علاوہ ازیں کیف کو خطرے کی گھنٹی بجانے والی روسی ٹینکوں کی قطاریں دارالحکومت کی باہر پھنس چکی ہیں، ولادیمیر پیوٹن کی جانب سے اپنی فورسز اعلیٰ سطح کی صلاحیت دکھانے کے لیے لائی گئی تھی جو گزشتہ کئی روز سے ملک کے مختلف شہروں پر حملہ کر رہی ہیں۔
یوکرین کے وزیر اعظم ڈینس شمیہل نے مغرب سے مطالبہ کیا کہ جھڑپوں میں شدت کے پیش نظر ملک کے جوہری پلانٹس بندکر دیں کیونکہ ’یہ پوری دنیا کی سلامتی کا سوال ہے‘۔
امریکا اور نیٹو اتحادیوں نے نو فلائی زون بنانے سے انکار کیا ہے کیونکہ اس اقدام سے روسی اور مغربی فوجی دستے ایک دوسرے کے خلاف آمنے سامنے آنے کا خدشہ تھا۔
مزید پڑھیں: روس یوکرین جنگ: ’یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے‘
روسی فورسز نے جنوبی شہر خرسون پر قبضہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو بحیرہ اسود کی ایک اہم بندرگاہ ہے اور مقامی یوکرین کے حکام نے وہاں کے سرکاری ہیڈکوارٹرز پر قبضے کی تصدیق کی۔
بحیرہ ازوف پر ایک اور اسٹریٹجک بندرگاہ ماریوپول کے مضافات میں بھی شدید جھڑپیں جاری ہیں، حکام نے بتایا کہ لڑائی سے شہر کی بجلی، گرمی اور پانی کے نظام کے ساتھ ساتھ فون سروس بری طرح متاثر ہوئی ہے جبکہ شہر میں کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل بھی بند کر دی گئی۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کی جانب سے ویب سائٹس پر پوسٹ کی گئی ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں سے ویران گلیاں اور طبی ٹیموں پر سیاہ آسمان روشن ہوگیا، طبی ٹیمیں شہریوں کا علاج کر رہی ہیں۔
بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف تک یوکرین کی رسائی منقطع ہونے سے اس کی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا جبکہ روس کو کریمیا کے لیے زمینی راہداری بنانے کا موقع ملا ہے، ماسکو نے اس علاقے کو 2014 میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
یوکرینی مزاحمت
روسی حملوں کے خلاف یوکرینی باشندوں کی جانب سے سخت مزاحمت کی جارہی ہے اور روس کی پیش قدمی کو روک دیا ہے لیکن ایک سینئر امریکی دفاعی عہدیدار نے شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا کہ روس نے کریمیا پر قبضہ کر کے اپنے ملک کو فائدہ پہنچایا ہے۔
یوکرین کے رہنماؤں نے لوگوں سے درخت کاٹ کر، شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور عقب سے دشمن کی ٹینکوں پر حملہ آور ہو کر اپنے وطن کا دفاع کرنے کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ حال ہی میں حکام نے شہریوں کو ہتھیار بھی فراہم کر دیے ہیں اور انہیں پیٹرول بم بنانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔
یوکرینی صدر کے معاون کا کہنا تھا کہ ’بھرپور مزاحمت کریں گے، یہ یوکرین کا ترپ کا پتہ ہے اور اسی طرح ہم دنیا میں بہترین کام کر سکتے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: یو این جی اے: روس کی مذمت کیلئے پاکستان سمیت 35 ممالک کا ووٹ دینے سے گریز
ویڈیو پیغام میں یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی نے دوسری عالمی جنگ میں نازیوں کے قبضے میں رہنے والے یوکرین میں دوبارہ گوریلا کارروائیوں کی ہدایت کی۔
دوسری جانب یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ پڑوسی ملک پولینڈ میں منعقد ہوا لیکن دونوں فریقین مذاکرات سے گریزاں رہے تھے، جس پر پیوٹن نے یوکرین کو خبردار کیا تھا کہ کریملین کے مطالبے کو جلد قبول کرتے ہوئے غیر مسلح ہوں، نیٹو میں شمولیت کے مطالبے سے دستبردار ہونے اور غیر جانبدار رہنے کا اعلان کریں۔
فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ روسی صدر پیوٹن نے میکرون کو بتایا کہ وہ آخر تک حملے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔
دونوں فریقین نے کہا کہ وہ عارضی طور پر پناہ گاہ قرار دیے گئے علاقوں میں جنگ بندی پر متفق ہیں اور اہم تفصیلات پر جلد کام کرنا چاہیں گے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی کے مشیر نے بھی کہا کہ مذاکرات کا تیسرا دور اگلے ہفتے کے آغاز میں ہوگا۔
پیوٹن نے روس مخالف جھوٹی خبروں کی مہم قرار دیتے ہوئے زور دیا کہ ماسکو صرف عسکری ٹھکانے تباہ کرنے کے لیے مخصوص ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ روسی فوج نے انخلا کے خواہاں شہریوں کے محفوظ راہداری کی پیش کش کی ہے لیکن یوکرینی، ‘نیونازی’ لوگوں کو جانے کے روک رہے ہیں اور انہیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
روسی سیکیورٹی کونسل کے اراکین سے ویڈیو بات چیت میں انہوں نے روسی فوجیوں کو ہیروز قرار دیتے ہوئے تعریف اور جنگ میں ہلاک یا زخمی ہونے والے فوجیوں کے اہل خانہ کو اضافی رقم دینے کا حکم بھی دیا۔
مزید پڑھیں: یوکرین بحران روس اور یورپ کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟
اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 10 لاکھ سے زائد افراد یوکرین سے بے دخل ہوگئے ہیں اور اس تعداد میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
دوسری جانب یوکرین میں شہریوں کو مسلسل مشکلات کا سامنا ہے، کیف میں برف باری سے موسم سرد ہے اور ایسے حالات اور موسم میں فارمیسیز اور بیکریوں کے باہر لوگوں کی قطاریں ہیں۔
رپورٹس میں بتایا گیا کہ شمالی شہر چیرنیہیف میں مزید شیلنگ کی گئی جہاں ایمرجنسی حکام کا کہنا تھا کہ رہائشی علاقے میں بمباری سے 33 شہری ہلاک ہوئے۔
حکام نے کہا کہ ڈونیٹسک کے مشرقی خطے میں شہری بچوں کے ساتھ کیچڑ اور برف سے اٹے ہوئے مشکل راستوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یاکوولیوکا میں فوجی کارروائی میں 30 گھر تباہ ہوئے اور 3 شہری بھی ہلاک ہوئے۔
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف کی تقریباً 14 لاکھ آبادی پریشان حال ہے اور بمباری سے بچنے کے لیے ریلوے اسٹیشن میں بھیڑ لگی ہوئی ہے اور یہ جانے بغیر ریل میں سوار ہو رہے ہیں کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
یوکرین کے جنوب میں روسی فوجی خیرسن سے مائیکولیف کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں جہاں مغربی خطے کی اہم بندرگاہ اور شپ بلڈنگ سینٹر ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے عہدیدار نے بتایا کہ مائیکولیف میں روسی اپنی بیس قائم کرسکتے ہیں تاکہ اوڈیسا پر حملے کیے جائیں جہاں یوکرین کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے اور یہاں سب سے بڑا نیول بیس بھی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق روس کے سیکڑوں ٹینک اور فوجی گاڑیاں ایک اندازے کے مطابق دارالحکومت کیف سے 25 کلومیٹر دور ہیں، تاہم ایندھن اور خوراک کی کمی کے باعث خاطر خواہ پیش قدمی نہیں کی۔