پی ٹی وی حملہ کیس: عارف علوی عدالت میں پیش، صدارتی استثنیٰ نہ لینے کی درخواست
پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) عدالت میں پیش ہو کر صدارتی استثنیٰ نہ لینے درخواست دائر کر دی۔
اے ٹی سی کے جج محمد علی وڑائچ نے سماعت کی جس میں صدر عارف علوی، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کے ہمراہ میں پیش ہوئے۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس میں بریت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جو 9 مارچ کو سنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی وی-پارلیمنٹ حملہ کیس: پی ٹی آئی رہنماؤں نے بریت کی درخواست دائر کردی
اس موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پاکستان کا قانون مجھے استثنیٰ دیتا ہے، میں اپنے اس استثنیٰ کو ختم کرتا ہوں، یہاں کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے، قانون کی نظر میں سب برابر ہونے چاہئیں۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ مجھے پتا چلا کہ عدالت فیصلہ اپنا فیصلہ تحریر کرنے لگی ہے تو عدالت میں پیش ہوا، مجھ پر صدر بننے کے بعد سیالکوٹ میں مقدمہ بنایا گیا، میں نے استثنی نہیں لیا بلکہ اپنا وکیل پیش کیا اور مقدمہ جیت لیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے اندر جب تک سب برابر نہیں ہوں گے، پاکستان میں انصاف دیر سے ملے گا، پوری عدلیہ سے درخواست ہے کہ فیصلے جلدی ہوں، فیصلے جلدی نہ ہوں تو نسلیں مقدمے لڑتی رہتی ہیں، مجھے معلوم ہے کہ عدالت کے اوپر بوجھ بہت ہے۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی، استثنیٰ کی گنجائش نہیں، آئین پاکستان کا پابند ہوں، قرآن پاک اس سے بڑا آئین ہے، جتنے خلفا آئے وہ عدالتوں میں بڑے باوقار انداز سے پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: پارلیمنٹ حملہ کیس: انسداد دہشت گردی عدالت نے وزیراعظم کو بری کردیا
انہوں نے مزید کہا کہ 2016 میں مجھ پر چارج لگا تھا، اسی عدالت سے ضمانت بھی لی تھی، جب تک عدالت کے سامنے تمام شہری برابر نہیں ہوں گے پاکستان میں انصاف تاخیر سے ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری عدلیہ سے درخواست ہے کہ جلدی فیصلے ہوں، جلد فیصلے نہ ہونے کے باعث کئی نسلوں تک مقدمے چلتے ہیں، میرے والد نے 1977 میں مقدمہ کیا تھا، وہ بھی آج تک چل رہا ہے، گواہ مر جاتے ہیں، یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، کاغذ ادھر ادھر ہو جاتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ عدالت کے اوپر بوجھ بہت ہے۔
عارف علوی نے مزید کہا کہ میری خواہش تھی کہ ریاست مدینہ کے انصاف کی جانب بڑھا جائے، مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ہتھیار سپلائی کیے ہیں، ہمارے آخری نبیﷺ نے کہا تھا کہ میری بیٹی فاطمہ بھی کوئی جرم کرے تو انصاف ہو گا، میں پاکستانی قوانین کا پابند ہوں مگر میں اس مقدمے میں استثنیٰ نہیں لینا چاہتا، میں صدر پاکستان نہیں بلکہ عام شہری کی حیثیت سے پیش ہوا تھا۔
صدر مملکت کے ہمراہ عدالت مینں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بابر اعوان نے کہا کہ صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 348 کا صدارتی استثنی حاصل ہے، لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عام شہری کے طور پر پیش ہوں گے اور صدارتی استثنیٰ نہیں لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی وی، پارلیمنٹ حملہ کیس: عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ بدلنا چاہتا ہوں، انہوں نے عدالت میں کہا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
خیال رہے کہ 17 فروری کو اسلام آباد انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی وی پارلیمنٹ حملہ کیس میں عارف علوی، جہانگیر ترین، پرویزخٹک، شفقت محمود سمیت دیگر ملزمان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے سال 2014 میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے کے تناظر میں ختم کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پارلیمنٹ حملہ کیس کا فیصلہ 29 اکتوبر کو سنائے جانے کا امکان
دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئی تھیں۔
حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام پر انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔
پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔
اس معاملے پر استغاثہ کے پرانے مؤقف کے مطابق 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:پارلیمنٹ حملہ کیس: عمران خان کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
استغاثہ نے کہا تھا کہ احتجاج پُرامن نہیں تھا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام ہے۔