• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

عثمان مرزا کیس: فرانزک رپورٹ میں مرکزی ملزم کی آواز میچ ہوئی، تفتیشی افسر

شائع March 3, 2022
حکومت نے کیس کی پیروی کا اعلان کیا تھا—فائل/فوٹو: ٹوئٹر
حکومت نے کیس کی پیروی کا اعلان کیا تھا—فائل/فوٹو: ٹوئٹر

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ برس سامنے آنے والے ویڈیو اسکینڈل کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان نے لڑکی سے زیادتی نہیں تاہم ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کی آواز میچ ہوئی۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ سیشن عدالت کے جج عطاربانی نے عثمان مرزا ویڈیو اسکینڈل کیس کی سماعت کی جہاں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے وکیل ملک جاوید اقبال وینس نے تفتیشی افسر پر جرح کی۔

مزید پڑھیں: عثمان مرزا کیس: متاثرہ لڑکی کے منحرف ہونے کے بعد حکومت کا مقدمے کی پیروی کا اعلان

تفتشی افسر نے کہا کہ وفاق تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹرجنرل (ڈی جی) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کے چئیرمین نے کوئی جواب نہیں دیا۔

وکیل نے سوال کیاکہ8 جولائی کو ڈی جی ایف آئی اے کو لکھا تھا کہ بتایا جائے ویڈیو کس ٹوئٹر اکاونٹ اور موبائل سے وائرل ہوا ہے تو تفتیشی افسر نے جواب دیاکہ جی خط لکھا تھا لیکن 7 ماہ گزرنے کے باوجود جواب نہیں ملا۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ یہ درست ہے کسی بھی ملزم نے لڑکی سے زیادتی نہیں کی اور لڑکی کا کوئی میڈیکل ڈی این اے نہیں کرایا تھا، صرف ایک ویڈیو وائرل ہونے اور یو ایس بی میں محفوظ کرنے کا ذکر ہے۔

انہوں نے کہا کہ موبائل شاپ کا گواہ عثمان شاہ نے کہا کہ میں نے ایک ہی ویڈیو یو ایس بی میں محفوظ کی ہے اور14 جولائی کو ایف آئی اے کو یو ایس بی بھیجنے کے لیے پارسل بنائے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوٹوگرامیٹری ٹیسٹ میں ملزم محب کی شناخت نہیں ہوئی، موبائل فون برآمد ہوا لیکن وہ ری سیٹ ہوا تھا جس پر میں نے دفعہ 201 کا اضافہ کیا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم کے موبائل فونز سے ویڈیو برآمد نہیں ہوئی اور ملزمان کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد عثمان سے موبائل فون برآمد ہوا تاہم دوران حراست ملزمان نے موبائل فون سے کوئی ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: عثمان مرزا اور نور مقدم کیس میں انصاف ضرور ہوگا، وفاقی وزیر اطلاعات

انہوں نے کہا کہ ویڈیو کے بارے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ 18 اور 19 نومبر 2020 کی شب کو بنی تھی جس کی شہادت بھی میرے پاس ہے جبکہ ملزم عثمان سے برآمد پستول کا فرانزک یا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ نہیں کرایا۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے لڑکے اور لڑکی کا بھی فوٹوگرامیٹرک ٹیسٹ نہیں کرایا اور ان کی شناخت نادرا یا اس کے اہل خانہ سے نہیں کرائی۔

انہوں نے کہا کہ ملزم کے وکیل کی درخواست پر یو ایس بی سیل کی گئی اور کمپیوٹر میں لگائی گئی، جس میں 6 ویڈیوز نظر آئیں جس میں 2 ویڈیوز 7 جولائی اور 4 ویڈیوز 9 جولائی کی ہیں اور اس وقت تفتیش میرے پاس تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر 6 تاریخ کو درج کر کے ملزم عثمان کو گرفتار کر لیا تھا، ایف آئی اے کی فرانزک رپورٹ کے مطابق عثمان کے علاوہ کسی ملزم کی آواز میچ نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ملزم محب خان کی آڈیو کی ایف آئی اے کی رپورٹ 21 جنوری کو ملی تھی۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے مرکزی ملزم کی جانب سے گواہان پر جرح مکمل کرنے پر کیس کی سماعت مکمل کی اور8 مارچ کو 342 کا سوالنامہ مہیا کیا جائے۔

عثمان مرزا کیس کی سماعت 8 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔

عثمان مرزا کیس کا پسِ منظر

جولائی 2021 کے اوائل میں اسلام آباد پولیس نے سوشل میڈیا پر ایک خاتون اور ایک مرد کو تشدد کا نشانہ بنانے اور برہنہ کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔

پولیس کی جانب سے 6 جولائی کو درج ہونے والی ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ واقعہ گولڑہ پولیس تھانے کی حدود میں سیکٹر ای-11/2 کی ایک عمارت میں پیش آیا جس کا مقدمہ سب انسپکٹر کی شکایت پر درج کیا گیا تھا۔

مذکورہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 354-اے (خاتون کی عصمت دری کی نیت سے حملہ یا مجرمانہ جبر کرنا)، دفعہ 506 (تخویف مجرمانہ سزا)، دفعہ 341 (مزاحمت بیجا کی سزا) اور دفعہ 509 (جنسی ہراسانی) کے تحت درج کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: جوڑے کو ہراساں کرنے کے کیس میں ایک ملزم کی ضمانت منظور

عہدیداروں نے بتایا تھا کہ ملزمان کے موبائل فون سے اسی طرح کی متعدد ویڈیوز برآمد ہوئیں اور ان کی نشاندہی کے لیے ان سے جانچ کی جارہی ہے جو زیادتی کا نشانہ بنے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش اور موبائل فون سے حاصل کردہ ویڈیوز سے معلوم ہوا ہے کہ یہ اس علاقے کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان واقعات میں سے چند پولیس کے علم میں آئے تھے تاہم کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

عہدیداروں نے بتایا تھا کہ ملزمان کا طریقہ کار ظاہر کرتا ہے کہ یہ منظم جرم تھا، ملزمان پراپرٹی اور کار ڈیلر ہیں اور انہوں نے علاقے میں فلیٹ خرید رکھا تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان یہ فلیٹ ایک روز یا مختصر سے وقت کے لیے بھی کرایے پر دیتے تھے اور پھر فلیٹ کرایے پر لینے والے جوڑوں کو نشانہ بناتے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے ساتھ ان کی ویڈیوز بھی بناتے تھے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: خاتون و مرد پر تشدد، برہنہ کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار

ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا تھا کہ مذکورہ جوڑے نے شادی کرلی ہے اور پولیس حکام نے جوڑے کو تحفظ کی یقین دہانی کروائی جس پر جوڑے نے کیس میں مدعی بننے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے یہ اعلان ایک خاتون اے ایس پی اور دیگر پولیس افسران کے ہمراہ ان سے ملاقات کے بعد کیا تھا جبکہ پولیس عہدیداروں نے جوڑے کو یقین دلایا تھا کہ انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ جوڑے نے اس معاملے میں شکایت کنندہ بننے پر اتفاق کیا ہے۔

بعد ازاں جنوری 2022 میں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں متاثرہ لڑکی اپنی بیان سے منحرف ہوگئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ کیس کی پیروی کرنا نہیں چاہتی ہیں۔

دوسری وفاقی حکومت نے کیس کی پیروی کرنے کا اعلان کیا اور پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے کہا تھا کہ عثمان مرزا کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت اور پولیس کی ذمہ داری ہے، اگلی پیشی میں ٹھوس شواہد پیش کیے جائیں گے۔

ٹوئٹر پر بیان میں ان کا کہنا تھا کہ عثمان مرزا کیس میں متاثرہ کی گواہی سے متعلق حالیہ پیش رفت سے قطع نظر ریاست استغاثہ کی پیروی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ناقابل تردید ویڈیو اور فرانزک شواہد ریکارڈ میں موجود ہیں کسی بھی عورت کو ہراساں اور بے لباس کرنے والے کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024