کورونا وائرس مردوں کے تولیدی نظام کو متاثر کرسکتا ہے، تحقیق
کورونا وائرس ممکنہ طور پر مردوں کی تولیدی نالی کے ٹشوز کو متاثر کرسکتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی جس میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس نر بندروں کی تولیدی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تحقیق کے نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آخر کیوں کووڈ کے کچھ مرد مریضوں کو ایریکٹائل ڈسفنکشن جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ شاید بیماری کے باعث پھیلنے والے ورم یا بخار کا نتیجہ نہیں بلکہ براہ راست وائرس کا نتیجہ ہوتا ہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی فینبرگ اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں 3 نر بندروں میں دریافت ہوا کہ کورونا وائرس مثانے اور اس کے اردگرد موجود خون کی شریانوں کو متاثر کرسکتا ہے۔
ان بندروں کا مکمل باڈی اسکین ہوا تھا جس کو خاص طور پر بیماری کے مقامات کو جاننے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
سائنسدانوں کو توقع تھی کہ وہ کورونا وائرس کو پھیپھڑوں میں دریافت کریں گے مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ مزید کہاں وہ ہوسکتا ہے، اسی لیے وہ اس دریافت پر حیران رہ گئے۔
محققین نے بتایا کہ اس دریافت نے ہمیں اچھلنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وائرس تولیدی نالی میں پھیل چکا تھا، ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہم اسے وہاں دریافت کرسکیں گے۔
یہ تحقیق محض 3 نر بندروں پر مبنی تھی مگر محققین کا کہنا تھا کہ اس کے نتائج سابقہ تحقیقی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ان بندروں کو تولیدی نظام کے متاثر ہونے سے مختلف علامات جیسے اسپرم کی کم مقدار یا دیگر کا سامنا ہوا یا نہیں۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے بیمار ہونے والے 10 سے 20 فیصد مردوں کی تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے۔
ان رپورٹس کے مطابق کووڈ سے متاثر مردوں میں ایریکٹائل ڈسفنکشن کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 3 سے 6 گنا زیادہ ہوتا ہے جو لانگ کووڈ کی جانب ایک اشارہ بھی ہے۔
محققین نے بتایا کہ دیگر وائرسز بھی اولاد کی صلاحیت پر اثرات مرتب کرتے ہیں جیسے زیکا وائرس اور ایبولا وائرس کا بھی یہ مضر اثر دیکھنے میں آیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ چاہے مریضوں کی کم تعداد کو ہی کورونا وائرس کی بیماری کے بعد تولیدی صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا ہو، مگر یہ تعداد لاکھوں یا کروڑوں میں ہوسکتی ہے، کیونکہ اس وبا نے کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے۔
انہوں نے مردوں پر زور دیا کہ وہ لازمی ویکسینیشن کرائیں اور اگر جنسی یا تولیدی صحت کے حوالے سے فکرمندی ہو تو طبی جانچ پڑتال کرانا مت بھولیں۔
اب یہ ماہرین اس تحقیق کو مزید آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ وائرس خواتین کے تولیدی نظام کے ٹشوز پر اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں۔
انہیں توقع ہے کہ اس میکانزم کو سمجھ کر علاج کو ترتیب دینے میں مدد مل سکے گی تاکہ بانجھ پن کے مسائل پر قابو پایا جاسکے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور bioRxiv میں جاری کیے گئے۔