بھارت مغربی دریا کے منصوبوں سے متعلق مزید تفصیلات دینے پر راضی
مغربی دریاؤں پر تقریباً ایک درجن کے قریب بننے والے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر پاکستان کے اعتراضات کے بعد بھارت نے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اضافی ڈیٹا فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انڈس واٹرس پر مستقل کمیشن (پی سی آئی ڈبلیو) کے دونوں ممالک کے کمشنرز کے درمیان تین روزہ اجلاس میں ایجنڈے کے تمام آئٹمز پر بات چیت مکمل ہوئی اور اجلاس کے دوران زیر بحث مذاکرات کو حتمی شکل دی جائے گی۔
اجلاس میں موجود ایک عہدیدار نے بتایا کہ دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا 10 بھارتی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر اعتراضات اٹھانے کا فیصلہ
پاکستان کے کمشنر برائے انڈس واٹرز مہر علی شاہ نے پاکستانی وفد کی قیادت کی، وفد میں واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی، محکمہ موسمیات، محکمہ آبپاشی پنجاب، وفاقی کمیشن برائے سیلاب، نیسپاک اور وزارت خارجہ کے حکام شامل تھے، بھارت کی جانب سے وفد کی قیادت اس کے کمشنر پردیپ کمار سکسینا کر رہے تھے۔
پاکستان نے 10 ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر اعتراضات کیے تھے، ان 10 منصوبوں میں سے 9 منصوبے 25 میگاواٹ اور اس سے چھوٹے پاور پروجیکٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔
ان چھوٹے منصوبوں سے متعلق بھارت نے کچھ ڈیٹا پاکستان کے ساتھ شیئر کیا تھا، تاہم تکنیکی چارٹ اور انداز میں فرق کے باعث فراہم کیا گیا ڈیٹا اسلام آباد کے لیے نا قابل فہم تھا۔
مذکورہ منصوبوں میں کولان رامواری، کالاروس ، تماشا ہائیڈرو، بالٹیکولن، داربک شیوک، نومو چلنگ، کارگل ہنڈرمین، پھگلا اور منڈی شامل تھے۔
پاکستان کو فراہم کیے گئے ڈیٹا کی وضاحت کرتے ہوئے بھارتی وفد نے کہا کہ صوبائی اور ریاستی حکومتیں عام طور پر چھوٹے منصوبوں کے معاملے میں ڈیزائن اور انجینئرنگ کی تفصیلات کو برقرار رکھنے میں غفلت برتتی ہیں لیکن وہ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت مطلوبہ دستاویزات کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے متعلقہ اداروں اور محکموں سے رجوع کریں گے۔
مزید پڑھیں:پاکستان اور بھارت کا انڈس واٹر مسائل حل کرنے کیلئے کوششیں کرنے پر اتفاق
پاکستان کی جانب سے 624 میگاواٹ کے کیرو اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی منصوبوں پر پانچ بڑے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، جن کو پاکستان 1960 کے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے، پاکستان کے اعتراضات فری بورڈ، انٹیک، سپل وے، پونڈایج اور لو لیول آؤٹ لیٹ سے متعلق ہیں۔
جن پر بھارتی فریق نے کھلے ذہن کے ساتھ اعتراضات کا جائزہ لینے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
پاکستان کا اصرار تھا کہ جب تک کوئی ٹائم فریم مقرر نہیں کیا جاتا ان کو مزید طوالت دینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
بھارت نے اضافی اعداد و شمار کے ساتھ اعتراضات پر اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے اور دو ہفتوں کے اندر اپنا جواب دینے پر اتفاق کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے موجود سال کے دوران ہی پاکستانی ٹیم کے دورے کا انتظام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔