نمبرز پورے ہیں، 24 سے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لائیں گے، مولانا فضل الرحمٰن
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے دوران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک کی کامیابی کے لیے ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کا موجودہ حکومت گرانے پر اتفاق ہے، ہمارا فوکس ہے کہ خزاں جائے، بہار آئے یا نہ آئے۔
مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد، درکار اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے اپوزیشن بھرپور سرگرم
ان کا کہنا تھا کہ اگلے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا ہے اور تحریک کی کامیابی کے لیے نمبرز پورے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی کمیٹی اگلے دو روز میں حتمی سفارشات دے گی اور تحریک عدم اعتماد اور اجلاس کی ریکوزیشن دونوں پر غور ہورہا ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے واضح کیا کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی اتحادیوں پر انحصار نہیں کر رہی ہیں بلکہ ان کا انحصار انفرادی شخصیات پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت گرانے کے بعد نئی حکومت کے قیام سے متعلق ابھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور عدم اعتماد سے پہلے کسی داخلی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتے۔
ایک سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہم سے کوئی رابطہ نہیں ہے البتہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے اسٹیبلشمنٹ کے رابطے کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان
مولانا نے کہا کہ امپائر بظاہر نیوٹرل نظر آ رہے ہیں لیکن ہم نے امپائر سے کوئی سپورٹ نہیں لینی۔
واضح رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گزشتہ ماہ 11فروری کو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اس ناجائز حکمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس سلسلے میں حکومت کی حلیف جماعتوں سے بھی رابطے کریں گے کہ وہ اپنا اتحاد ختم کریں۔
تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے اکابرین کے درمیان اہم ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ان کے ماڈل ٹاؤن میں واقع گھر پر ملاقات کی تھی جبکہ ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعےملاقات میں شرکت کی تھی۔
مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپوزیشن میں ڈیڈ لاک ہوگیا ہے، شیخ رشید کا دعویٰ
پی پی پی رہنماؤں کی آمد سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے بھی شہباز شریف سے علیحدہ ملاقات کی تھی جس میں دونوں رہنماؤں نے اراکین کی تعداد سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی تھی۔
اپوزیشن کا اقدام کامیاب ہونے کی صورت میں پی پی پی چیئرمین بلاول پہلے ہی شریف خاندان کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے ڈان کو بتایا تھا کہ وزارت عظمیٰ ان کی پارٹی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت کی برطرفی نئے انتخابات کی راہ ہموار کردے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کو حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ(ق)، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ معاملات کو حتمی شکل دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے کہ حکومت کے اتحادی وزیراعظم عمران خان سے الگ ہوجائیں۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 16، پی پی پی نے 6 اور جے یو آئی-ایف نے پی ٹی آئی کے 2 ان اراکین قومی اسمبلی کے نام پیش کیے جن کے بارے میں یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انہوں نے ان اراکین کا اعتماد حاصل کرلیا ہے اور وہ اراکین قومی اسمبلی کپتان عمران خان کے خلاف جانے کے لیے تیار ہیں۔
اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں پانچ نشستوں کی حامل مسلم لیگ(ق) کے رہنماؤں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی تھی جبکہ اس سے قبل شہباز شریف نے بھی 14سال کے طویل عرصے کے بعد چوہدری برادران سے ملاقات کر کے ساتھ چلنئے کی پیشکش کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی کوشش ناکام بنانے کیلئے وزیراعظم کی چوہدری برادران سے ملاقات
جہاں ایک طرف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے لیے سرگرم ہے وہیں دوسری جانب حکومت بھی اتحادیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے متحرک ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے چوہدری شجاعت کی رہائش گاہ جا کر ان کی عیادت کی تھی اور اس موقع پر اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بھی موجود تھے۔
ملاقات کے دوران ملک کی سیاسی صورت حال اور اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی کوششوں پر ان کی حمایت پر گفتگو کی گئی تھی۔