• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کے-الیکٹرک کی فروخت شرائط نامعلوم ہونے کے سبب روکی گئی، سابق عہدیدار

شائع March 2, 2022
عرفان علی نے کہا کہ شیئر ایگریمنٹ کو پہلے دیکھے بغیر سیکیورٹی کلیئرنس دینے میں خطرہ تھا — فائل فوٹو: کے ای ویب سائٹ
عرفان علی نے کہا کہ شیئر ایگریمنٹ کو پہلے دیکھے بغیر سیکیورٹی کلیئرنس دینے میں خطرہ تھا — فائل فوٹو: کے ای ویب سائٹ

2018 میں شنگھائی الیکٹرک پاور کمپنی کو کے الیکٹرک (کے-ای) لمیٹڈ کی فروخت روکنے پر تنقید کا نشانہ بننے والے ایک حکومتی اہلکار نے کہا ہے کہ ان کی جانب سے ٹرانزیکشن کی شرائط کو دیکھنے کی درخواستوں کا مقصد ’قومی مفاد ‘کا تحفظ کرنا تھا جو کہ مسترد کردی گئی تھیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2017 سے 2018 تک سیکریٹری نجکاری رہنے والے عرفان علی نے کہا کہ وہ کراچی کی بجلی کی یوٹیلٹی، چینی کمپنی کو فروخت کرنے کے مخالف نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ کی سفارش کرنے سے پہلے حصص کی خریداری کے معاہدے کو دیکھنے کی ضرورت تھی، جس میں معاہدے کی شرائط موجود تھیں۔

عرفان علی نے دعویٰ کیا کہ ’ابراج‘ نامی نجی ایکویٹی فرم نے انہیں یہ دستاویز دکھانے سے انکار کردیا جو 'کے ای' میں اپنا کنٹرولنگ حصص ایک ارب 77 کروڑ ڈالر میں شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کرنا چاہتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی والے کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خمیازہ بھگت رہے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے'

انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کو شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لین دین کی شفافیت کے بارے میں ایک سوال ہے جس کا میں نے مطالبہ کیا تھا اور اب بھی ہے، کوئی بھی ملک جو اتنی بڑی لین دین کے لیے جا رہا ہے اسے بہت محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔

عرفان علی نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ایک انٹرویو میں اس بیان کے بعد اپنے اقدامات کی وضاحت کی کہ سابق سیکریٹری نجکاری نے 'کے ای' کی فروخت کو مؤثر طریقے سے روک دیا جو مکمل نہ ہو سکی۔

دسمبر 2021 میں اسٹاک ایکسچینج کی فائلنگ کے مطابق شنگھائی الیکٹرک اب بھی کے-الیکٹرک خریدنے کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک صارفین کیلئے بجلی 4 روپے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان

کے-الیکٹرک کا مستقبل 2018 کے بعد سے غیر یقینی کی صورتحال میں گھرا ہوا ہے جب برسوں سے اس کو کنٹرول کرنے والا سرمایہ کار ’ابراج‘ دیوالیہ ہوگیا تھا۔

ابراج نے 2009 میں کے ای ایس پاور لمیٹڈ کا کنٹرول خریدا، جو کے-ای کے 66.4 فیصد کا مالک ہے۔

ابراج کے بانی عارف نقوی نے کے-الیکٹرک کی فروخت کو مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہوں نے ان سے ملاقات کی اور کے-ای سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک نے صارفین کے بلوں میں اضافے سے متعلق خبریں مسترد کردیں

ابراج نے مالی زبوں حالی سے پہلے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں سمیت سرمایہ کاروں کے لیے تقریباً 14 ارب ڈالر کا انتظام کیا، دیوالیہ پن کے ماہرین اب ابراج کی نگرانی کرتے ہیں۔

عرفان علی نے کہا کہ 2018 کے آخر میں جب انہیں وزیر اعظم عمران خان کی نومنتخب حکومت نے توانائی کی وزارت میں پاور ڈویژن کا سیکریٹری مقرر کیا تب انہوں نے بالآخر پہلی بار شیئر کی خریداری کا معاہدہ دیکھا۔

ریٹائرڈ سرکاری ملازم عرفان علی نے کہا کہ معاہدے میں کئی ایسی شقیں موجود تھیں جن پر ابراج ایک پرائیویٹ کمپنی کے طور پر حکومت پاکستان کی جانب سے اتفاق نہیں کر سکتا تھا۔

حصص کی خریداری کے معاہدے کی ایک دستیاب کاپی کے مطابق ابراج پیشگی شرائط سے اتفاق کرتا ہے، دستاویز کے مطابق شرائط میں کے ای کے لیے غیر ملکی حکومت کی ملکیت ہونے کی منظوری حاصل کرنا شامل تھا۔

مزید پڑھیں: آخر ’کے الیکٹرک‘ کس کے کنٹرول میں ہے؟

عرفان علی نے کہا کہ ان الفاظ کے بہت وسیع معنیٰ تھے۔

حصص کی خریداری کے معاہدے کے مطابق ابراج نے ایک نئے قابل قبول ٹیرف کو حاصل کرنے کا عزم بھی کیا جس پر بجلی کا ریگولیٹر کے-الیکٹرک کو بجلی فروخت کرنے کی اجازت دیتا اور ایک معاہدہ جس کے مطابق حکومت سندھ، کراچی واٹر اتھارٹی کے بجلی کے بل کی ادائیگی کی ضمانت دے گی۔

ایک ضمانتی دستاویز بھی طلب کی گئی جس کے تحت حکومت کے زیر کنٹرول سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ، کے-الیکٹرک کو گیس کی مناسب فراہمی کرتی رہے گی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ابراج اور شنگھائی الیکٹرک کے درمیان حصص کی خریداری کے معاہدے کی شرائط تجارتی طور پر خفیہ تھیں اس لیے قانونی طور پر اسے حکومت کے ساتھ شیئر کرنا ممکن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کا ستمبر کیلئے 3 روپے 45 پیسے فی یونٹ اضافی لاگت کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ دینے سے پہلے حکومت کے مفادات کے تحفظ کے لیے ’کافی معاوضے‘ موجود تھے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سیکریٹری نجکاری رکاوٹ بن رہے تھے، لیکن دور اندیشی کے ساتھ دیکھا جاتا تو اس میں اور بھی بہت کچھ تھا، اس لین دین کا ملک میں حکومت اور عوام پر بہت اچھا اور مثبت اثر پڑتا۔

مئی 2018 تک نجکاری کے وزیر رہنے والے دانیال عزیز نے حصص کی خریداری کے معاہدے کو دیکھنے کی ضرورت کے بارے میں عرفان علی سے اتفاق نہیں کیا۔

ایک انٹرویو میں دانیال عزیز نے کہا کہ قانون کے مطابق، حکومت، کے-ای کی فروخت کے لیے نیشنل سیکیورٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ کو حصص کی خریداری کا معاہدہ پہلے سے دیکھنے کے لیے روک نہیں سکتی۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک کو 1.08 روپے فی یونٹ ایندھن کی اضافی لاگت وصول کرنے کی اجازت

انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت حصص کی خریداری کا معاہدہ کسی بھی صورت میں لین دین سے پہلے پیش کیا جائے گا۔

عرفان علی نے کہا کہ انہیں حصص کا معاہدہ اس لیے طلب کرنا پڑا کیونکہ یہ لین دین کی ’جزوی دستاویز‘ تھی جسے سیکیورٹی کلیئرنس کی سفارش کرنے سے پہلے انہیں دیکھنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے قانونی مشیروں اور دیگر حکام سے مشورہ کیا، جنہوں نے ان سے اتفاق کیا۔

عرفان علی نے کہا کہ شیئر ایگریمنٹ کو پہلے دیکھے بغیر سیکیورٹی کلیئرنس دینے میں خطرہ یہ تھا کہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ حکومت نے ایسی شرائط منظور کر لی ہیں جن کے بارے میں اسے علم نہیں تھا۔

عرفان علی سول سروس میں 38 سال رہنے کے بعد فروری 2021 میں ریٹائر ہوئے۔

ڈیل سے متعلق عرفان علی کے اہم خدشات میں سے ایک یہ تھا کہ فروخت سے پہلے کے-ای اور ریاست کے زیر کنٹرول کمپنیوں کے درمیان بقایا ادائیگیوں اور وصولیوں کو طے کرنے کے طریقے پر اتفاق کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کے الیکٹرک مہنگی بجلی بنا رہی ہے، نیپرا

عرفان علی اور موجودہ اور سابق سرکاری افسران سمیت فروخت کے عمل میں شامل دیگر افراد کے مطابق دیگر سرکاری اہلکار بھی یہ معاملہ طے کرنا چاہتے تھے۔

2019 میں ابراج کے مالک عارف نقوی کو نجی ایکویٹی فرم کے انتظام سے متعلق دھوکہ دہی اور چوری کے امریکی کرمنل چارجز کے تحت لندن میں گرفتار کیا گیا تھا، تاہم انہوں نے ان الزامات کی تردید کی۔

تبصرے کے لیے ان کے وکیل سے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے جواب نہیں دیا۔

فروری 2021 میں شاہد خاقان عباسی نے بتایا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کے-ای کی فروخت کی ناکامی سمجھ سے باہر ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر فروخت مکمل ہو جاتی تو عارف نقوی شاید آزاد ہو جاتے کیونکہ اس رقم سے لیکویڈیٹی کے مسائل کو فنڈ مل سکتا تھا اور مارکیٹ کے اعتماد کے مسائل حل ہو سکتے تھے جن کا ابراج کو سامنا تھا۔

مزید پڑھیں: ’کے الیکٹرک‘ کی ’غیر نصابی‘ خدمات

شاہد خاقان عباسی نے یکم فروری 2021 کو شائع ہونے والے ڈان کے ایک مضمون میں کہا کہ ’ایک شخص جس کے ملک میں طاقتور ترین لوگوں کے ساتھ گہرے روابط تھے، وہ اپنے حصص کی فروخت میں انتظامی رکاوٹوں کو حل کرنے میں ناکام رہا، معاملہ کچھ اور ہے، کیسے اور کیوں؟‘

مضمون شائع ہونے کے بعد جب ان سے انٹرویوز میں کے-ای کی فروخت کے بارے میں تشویش کی وجوہات بتانے کے لیے کہا گیا تو سابق وزیر اعظم نے سوال کیا کہ کیا چینی کمپنی کو یوٹیلٹی فروخت کرنے کی مخالفت کرنے کے لیے عرفان علی جیسے حکام پر ’بیرونی اثرات‘ ہیں؟

اس حوالے سے عرفان علی سے جواب طلب کرنے پر انہوں نے کہا کہ ’بلکل بھی نہیں، یہ میرا اپنا فیصلہ تھا، ہماری معیشت میں سرمایہ کاری اچھی ہے اور چینی ہمارے دوست ہیں، لیکن تمام لین دین کو شفاف ہونا چاہیے تاکہ ہم شرائط پر متفق ہو سکیں۔'

انہوں نے کہا کہ اگر شفافیت نہ ہو اور کل کسی دوست ملک کی کمپنی آئے اور پھر ہماری حکومت اور اس ملک کے درمیان تنازع کھڑا ہو جائے تو کیا یہ اچھا ہے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا، مجھے یقین ہے کہ ہم حصص کی خریداری کے معاہدے اور ذمہ داریوں کی تفصیل مانگ کر اپنا فرض ادا کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی، ’کے الیکٹرک‘ کی کارکردگی اور ’اگر، مگر‘ کا تڑکا

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کے-الیکٹرک کی معطل فروخت نے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے-الیکٹرک الجھاؤ کا شکارہے، اگر شنگھائی الیکٹرک جیسی عالمی معیار کی یوٹیلٹی آتی تو دنیا بھر کی دیگر یوٹیلٹیز پاکستان کی طرف دیکھتیں اور اس کی دیگر یوٹیلٹیز میں سرمایہ کاری کرتیں۔

ابراج اور کے ای کے سابق ایگزیکٹو تابش گوہر (جنہوں نے کے ای کی فروخت پر اتفاق ہونے سے پہلے ہی دونوں کمپنیاں چھوڑ دی تھیں) نے کہا کہ ابراج نے فروخت کے عمل کے دوران سینئر پاکستانی سیاست دانوں کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دی، لیکن اس لین دین کی جانچ میں ملوث سرکاری اہلکار بھی اہم تھے۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ عرفان علی جیسے لوگ بھی بہت اہم ہیں۔

کے ای کے ترجمان نے کہا کہ کمپنی اور اس کے شیئر ہولڈرز، حکومت سے شنگھائی الیکٹرک کے معاہدے، بجلی کے نرخوں اور کمپنی اور حکومت کے درمیان وصولیوں اور ادائیگیوں کے بارے میں ایک ثالثی معاہدے کے لیے قومی سلامتی کی منظوری حاصل کرنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024