’پی ٹی آئی کے غیر ملکی عطیات کی تفصیل دینے میں 2018 کے انتخابات تک تاخیر کی گئی‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اکاؤنٹس (بشمول غیر اعلانیہ اکاؤنٹس) میں غیر ملکی ترسیلات کے بارے میں ایک نجی بینک نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے مانگا گیا اہم ڈیٹا فراہم کرنے میں 2018 کے عام انتخابات تک تاخیر کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق18 اگست 2018 کو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد نجی بینک نے مذکورہ ڈیٹا فراہم کرنے سے معذوری کا اظہار کیا۔
حال ہی میں ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والے ریکارڈ میں شامل دستاویزات کے مطابق اب غیرفعال ہوجانے والے نجی بینک میں پی ٹی آئی کی تمام غیرملکی ترسیلات خفیہ رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں سرخرو ہوئی، ایک،ایک پائی کا حساب دیا، فواد چوہدری
حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کے آڈٹ کے لیے ای سی پی کی اسکروٹنی کمیٹی کی تشکیل کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہدایت پر شیڈول بینکوں نے یہ ریکارڈ براہ راست ای سی پی کو فراہم کیا۔
ای سی پی نے اسٹیٹ بینک سے درخواست کی تھی کہ وہ کمیشن کو پی ٹی آئی اکاؤنٹس اور خاص طور پر 2009 سے 2013 تک بیرون ملک سے فنڈز کی منتقلی کی تفصیلات حاصل کرنے میں سہولت فراہم کرے۔
ریکارڈ کے مطابق نے پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کرنے والے اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ اور ای سی پی کے ڈائریکٹر جنرل (لا) محمد ارشد نے آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت 3 جولائی 2018 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کو خط لکھا۔
مزید پڑھیں:فارن فنڈنگ کیس: 'پی ٹی آئی نے غیر ملکی اکاؤنٹس چھپانے کی کوشش کی'
خط کا مقصد پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کرنے میں ای سی پی کو سہولت فراہم کرنا تھا جس میں 2009 سے 2013 تک بیرون ملک سے فنڈز کی منتقلی بھی شامل تھی۔
ایک ہفتے بعد اسٹیٹ بینک نے ملک کے تمام شیڈول بینکوں کے صدور کو خطوط لکھے تاکہ مطلوبہ معلومات براہ راست ای سی پی کو جمع کرائیں۔
جس کے بعد بہت سے بینکوں نے تمام بینک اسٹیٹمنٹس اور پی ٹی آئی کی غیرملکی ترسیلات سے متعلق معلومات سمیت دیگر مالی تفصیلات ای سی پی کو فراہم کیں۔
ایک مخصوص بینک کی جانب سے جمع کروائی گئی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ اب غیر فعال ہوجانے والے ایک نجی بینک میں پی ٹی آئی کے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں موصول ہونے والی ترسیلات بدستور خفیہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی خفیہ دستاویزات اب تک سامنے نہیں لائی گئیں
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ مئی 2015 میں ہزار روپے کی ٹوکن قیمت پر حاصل کیے گئے بینک نے ابتدائی طور پر ای سی پی سے 16 جولائی 2018 کو ایک خط کے ذریعے تفصیلات بتانے کے لیے مزید 5 روز مانگے اور آخر میں 20 اگست 2018 کو ایک اور خط کے ذریعے سافٹ ویئر کی عدم مطابقت کے سبب تفصیلات بتانے سے معذوری کا اظہار کیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلے اور دوسرے خط کے درمیان 5 ہفتوں کے اس وقفے کے دوران ملک میں عام انتخابات 25 جولائی 2018 کو منعقد ہوئے اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 18 اگست 2018 کو پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
بینک کی جانب سے ای سی پی کو 16 جولائی 2018 کو لکھے گئے ابتدائی جواب میں کہا گیا کہ ’بیرون ملک ترسیلات کے حوالے سے، یہ عرض کیا جاتا ہے کہ ہم نے مطلوبہ معلومات کی بازیافت کا عمل شروع کر دیا ہے تاہم چونکہ معلومات غیرفعال (نجی بینک) سے متعلق ہے اس لیے ہمیں آپ کے دفتر میں ایک جامع جواب جمع کرانے کے لیے کچھ اضافی وقت درکار ہوگا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ لہذا براہ کرم اپنے دفتر میں (پی ٹی آئی کی غیر ملکی ترسیلات سے متعلق) معلومات جمع کرانے کے لیے 5 روز کی توسیع کی درخواست کی جاتی ہے‘۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس: ای سی پی کا خفیہ دستاویزات منظر عام پر لانے کا حکم
تاہم 5 روز میں پی ٹی آئی کی غیر ملکی ترسیلات زر کی تفصیلات شیئر کرنے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت کے حلف اٹھانے کے 2 روز بعد 20 اگست 2018 کو اپنے دوسرے خط میں بینک نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کو غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں موصول ہونے والی ترسیلات سے متعلق معلومات کے لیے بینک نے متعلقہ لین دین کے محفوظ شدہ سوئفٹ پیغامات کی بازیافت کے لیے سوئفٹ حکام سے رجوع کیا تھا۔۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے خط میں مزید کہا گیا کہ سوئفٹ حکام کی جانب سے فراہم کردہ بیک اپ فائل (سافٹ ویئر) ورژن کے فرق کی وجہ سے بینک کے زیر استعمال موجودہ سافٹ ویئر پر نہیں کھولی جا سکی، لہذا کسی بھی بامعنی معلومات کی بازیافت کا امکان نہیں ہے’۔
سال 2008 سے 2012 تک ای سی پی کے زیر جائزہ ہر مالی سال کے لیے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے دستخط کیے گئے حلف نامے کے مطابق تحریک انصاف کے صرف 2 اکاؤنٹس تھے، جن میں سے ایک اب غیرفعال ہوجانے والے بینک میں تھا۔
تبصرے کے لیے غیر ملکی فنڈنگ کیس میں درخواست گزار، پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مزید کارروائی کے لیے اس معاملے پر ای سی پی سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔