روس یوکرین جنگ، پاکستان کیلئے ایل این جی درآمد کے آپشنز محدود
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے باعث پاکستان کے لیے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) درآمد کرنے کے آپشن مزید محدود ہوگئے، پاکستان کو 14 کے بجائے ماہانہ 8 سے 10 کارگوز کی فراہمی کے باعث پہلے ہی بجلی کی پیداوار اور صنعتی ضروریات پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت قطر سے ماہانہ تقریباً 100 ملین کیوبک فیٹ یومیہ (ایم ایم سی ایف ڈی) کے 7 سے 8 کارگو درآمد کررہا ہے اور 2 ان کمپنیوں سے درآمد کیے جارہے ہیں جو عادی نادہندہ ہیں۔
اس تمام صورتحال میں مارکیٹ کے سخت حالات کے پیش نظر کمپنیوں کی جانب سے ڈیفالٹ کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے جس سے پاکستان مکمل طور پر قطر کے رحم و کرم پر آجائے گا۔
قطر کے ساتھ دو طویل المدتی معاہدوں کے تحت پاکستان میں سرکاری ادارے ماہانہ بنیادوں پر 6 کارگوز 13.37 فیصد برینٹ اور ایک سے دو کارگو 10.2 فیصد برینٹ پر درآمد کرتے ہیں۔
یہ بالترتیب 10.6 سے 11 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی وی) اور تقریباً 8.2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان بلیک آؤٹ سے بچنے کے لیے مہنگے داموں ایل این جی خریدنے پر مجبور
قطر سے 25 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سے کچھ زیادہ پر اسپاٹ خریداری کے اعداد و شمار دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کس طرح کی صورتحال کا سامنا ہوسکتا ہے، جہاں پاکستان اپنے طویل مدتی معاہدوں سے تقریبا 5 کروڑ 50 لاکھ ڈالر زیادہ ادا کرنے پڑیں گے۔
مدتی معاہدوں کے تحت قطر سے خریدی جانے والے ایل این جی کارگو کی قیمت تقریباً 2 کروڑ 60 لاکھ سے 3 کروڑ ڈالر تک رہتی ہے جبکہ اسپاٹ خریداری تقریباً 8 کروڑ ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔
یورپ میں گیس کی قیمتیں 24 ڈالر سے بڑھ کر 40 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوچکی ہیں، یہ قیمتیں موسم گرما کے دوران طلب کے لیے ہیں، اس حقیقت کے باوجود کہ یورپی ملکوں کے پاس گیس ذخیرہ کرنے کی مناسب صلاحیت ہے۔
اس وقت مارکیٹ میں ایل این جی کی قیمتیں 38-40 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے قریب ہیں، جس کا پریمیم تقریباً 10 کروڑ ڈالر فی کارگو ہے۔
پاکستان کو ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ اضافی 5 سے 7 کارگوز کی ضرورت ہے، اس حساب سے پاکستان کو تقریبا 35 سے 50 کروڑ ڈالر ماہانہ ادائیگی کرنی ہوگی۔
اگر یہ ناکافی ہوا تو گیس مجوزہ وزنی اوسط قیمت (ڈبلیو اے سی او جی) کی کوششوں سے قطع نظر مالی گنجائش بہت محدود ہے اور وزارت توانائی سستی مقامی اور مہنگی درآمدی گیس کو ملا کر ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں:ایل این جی کی ایشین اسپاٹ پرائسز 6 ماہ کی بلند ترین سطح پر
یہ اقدام صنعت اور طویل مدتی مسابقت کی قیمت پر 12 سے 18 فیصد کے سسٹم نقصانات پر چلنے والی انتہائی ناکارہ گیس کمپنیوں کو ایک نئی زندگی دے سکتا ہے۔
جرمنی کی جانب سے روسی نارڈ اسٹریم پائپ لائن پر پابندیوں کے بعد مختصر مدت میں اس بات کا امکان ہے کہ یورپی صارفین اسپاٹ مارکیٹ میں ایل این جی کی جو بھی سپلائی دستیاب ہے، خریدنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں گے اور قطر سمیت طویل مدتی سپلائزرز سے جو بھی ممکن ہوگا وہ سپلائی حاصل کریں گے۔
روسی گیس پائپ لائن سے سپلائی ہو یا نہ ہو، ایک بات واضح ہے کہ یورپی ممالک اب روسی سپلائی پر پہلے سے انحصار کرنے کی بجائے توانائی کی درآمدات کے لیے مزید نئے ممالک کا رخ کریں گے۔