سینیٹ کے 45 روزہ اجلاس میں صرف 48 گھنٹے کارروائی ہوئی
ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 17 فروری کو ختم ہونے والے 45 روزہ سینیٹ اجلاس کے دوران ایوان میں 47 گھنٹے کارروائی ہوئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو دن کے وقفے کو اجلاس کے دنوں میں شمار کیا جاتا ہے، اس لیے سینیٹ کا اجلاس ایک یا دو دن ہوتا تھا اور پھر دو دن کے لیے وقفہ ہوجاتا تھا۔
عموماً سینیٹ کا اجلاس ہفتے میں 3 روز ہوتا تھا، لیکن ساتوں دنوں کو 317 ویں اجلاس کے دوران اجلاس کے دنوں کی تعداد میں شمار کیا جاتاہے۔
45 روز کے اجلاس کے دوران ایوان میں حقیقی طور پر صرف 19 روز کی کارروائی ہوئی، جو کہ دستاویزت میں درج کیے گئے کل ایام کے 42 فیصد ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان کی حکومت کے خلاف نعرے بازی
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے سینیٹ کے اجلاس کسے متعلق رپورٹ میں کہا کہ ’یہ بتانا ضروری نہیں کہ اجلاس میں شمار کیے گئے دنوں کے لیے سینیٹرز کو الاؤنس دیا جاتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر ایوان میں 47 گھنٹے اور 56 منٹ کی کارروائی ہوئی جس کا اوسط وقت فی نشست دو گھنٹے اور 31 منٹ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ہم اجلاس کے دنوں میں شمار ہونے والے پورے 30 دنوں میں کل کام کے اوقات کو تقسیم کریں، تو روزانہ کام کے اوقات کی اوسط تعداد صرف ایک گھنٹہ بنتی ہے‘۔
سینیٹ نے 317 ویں اجلاس کے دوران منعقدہ 19 اجلاسوں میں اپنے ایجنڈا کے اوسطاً 72.57 فیصد آئٹمز کو نمٹایا ہے جبکہ باقی آئٹمز مؤخر الذکر ہیں۔
7 جنوری، 11 جنوری، 18 جنوری، 4 فروری اور 14 فروری کو زیادہ سے زیادہ 100 فیصد ایجنڈا آئٹمز نمٹائے گئے، جبکہ 14 جنوری کو زیادہ سے زیادہ ایجنڈا آئٹمز میں 88.89 فیصد رہ گئے تھے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس: ‘ملک میں برداشت کا کلچر نافذ کرنے کیلئے ایک آواز ہونا پڑے گا’
اس دوران 5 اجلاسوں میں کورم کی نشاندہی کی گئی جبکہ 4 اجلاس کورم کی وجہ سے ملتوی کر دیے گئے، اجلاسوں میں اوسطاً 63 سینیٹرز نے حاضری ہوئے تھے۔
جب پہلی بار کورم کی کمی کی نشاندہی کی گئی اس وقت 25 فیصد کم سینیٹرز تھے لیکن اس وقت ایوان بالا کو منظم پایا گیا تھا تاہم ایوان کو منظم کرنے کے لیے 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئی تھیں۔
4 جنوری کو دوسری بار جب کورم کی نشاندہی کی گئی تو ایوان کو دوبارہ بے ترتیب پاتے ہوئے کارروائی ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ اس روز 69 سینیٹرز نے حاضری دی تاہم گنتی کے وقت ایوان میں کورم پورا نہیں تھا۔
11 جنوری کو ہونے والی نشست بھی کورم پورا نہ ہونے کے باعث ملتوی کر دی گئی جبکہ اس روز 73 سینیٹرز نے اپنی موجودگی ریکارڈ کرائی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کا شور شراب
اسی طرح 14 جنوری کو ہونے والے اجلاس کو بھی کورم کی کمی کے باعث ملتوی کر دی گئی جس میں 43 سینیٹرز موجود تھے، کورم کی کمی کے باعث ملتوی ہونے والی چوتھی نشست 7 فروری کو منعقد ہوئی جب 61 سینیٹرز نے ایوان میں حاضری کو یقینی بنایا۔
45 روزہ اجلاس کے دوران سینیٹرز کی اوسطاً حاضری 63 فیصد ریکارڈ کی گئی جس کا مطلب ہے کہ اوسطاً 63 سینیٹرز نے اجلاس میں شرکت کی۔
پلڈاٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا سے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد 317 ویں سیشن کے دوران 2 گھنٹے 41 منٹ کے ریکارڈ شدہ ٹاک ٹائم کے ساتھ سب سے زیادہ آواز والے سینیٹر ہیں۔
سینیٹ میں قائد ایوان پی ٹی آئی (پنجاب) ڈاکٹر شہزاد وسیم نے دو گھنٹے 18 منٹ تک خطاب کیا، اس کے بعد پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان (سندھ) نے اجلاس کے دوران ایک گھنٹہ 52 منٹ تک بات کی۔
خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے ایک گھنٹہ 28 منٹ جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی (سندھ) نے ایک گھنٹہ 14 منٹ تک خطاب کیا۔
مزید پڑھیں: وزیر خزانہ آج سینیٹ میں ’منی بجٹ‘ پیش کریں گے
اجلاس کے دوران، سینیٹ سے 15 بل منظور کیے گئے، جن میں انتہائی متنازعہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ترمیمی) بل 2022 بھی شامل ہے، جسے حزب اختلاف نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیتی ہے۔
بل کو صرف ایک ووٹ کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ اپوزیشن کی طرف سے تجویز کردہ ترامیم مسترد کر دی گئیں۔
علاوہ ازیں 43 سینیٹرز نے بل کے حق میں جبکہ 42 نے مخالفت میں ووٹ دیے تھے۔
اجلاس کے دوران کسی آرڈیننس میں توسیع نہیں کی گئی حکومت نے 7 جبکہ پرائیویٹ ارکان نے 27 بل پیش کیے۔