جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا
پاکستان کا ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) جنوری میں 2 ارب 55 کروڑ ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جو گزشتہ سال کے اسی مہینے میں 21 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی اہم وجہ درآمدات میں اضافے کے ساتھ بڑھتی درآمدی قیمتیں ہیں۔
دسمبر 2021 میں سی اے ڈی ایک ارب 9 کروڑ تھا، تاہم تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے ساتھ بڑھتی ہوئی درآمدات نے سی اے ڈی کو 2018 میں 20 ارب ڈالر کی اب تک کی بلند ترین سطح سے نیچے لانے کی جدوجہد کو تقریباً ناکام کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:جولائی سے دسمبر تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب 9 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات اہم عنصر ہے جس نے بل میں اضافہ کیا لیکن سروسز درآمدات بھی گزشتہ سال کی اسی مدت میں 4 ارب 4 کروڑ 26 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 39 فیصد اضافے سے 6 ارب ایک کروڑ 74 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے جاری کردہ ادائیگیوں کے توازن سے متعلق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 22-2021 کے ابتدائی 7 ماہ کے دوران ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 11 ارب 6 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جو کہ مالی سال 2021 کے پہلے 7 مہینوں میں ایک ارب 28 لاکھ ڈالر سرپلس تھا۔
اگرچہ حکومت نے درآمدی بل میں کمی کے لیے کئی اقدامات کیے لیکن وہ ناکام رہے، گڈز اینڈ سروسز کا تجارتی خسارہ رواں مالی سال کے ابتدائی 7 مہینوں میں بڑھ کر 27 ارب 35 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 14 ارب 81 کروڑ ڈالر تھا۔
مزید پڑھیں: کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مئی میں 63 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگیا
برآمدی شعبے کی بہتر کارکردگی کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ترسیلات زر بھی برقرار ہیں۔
گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے 7 مہینوں کے دوران کُل برآمدات میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔
مالی سال 22 میں جولائی تا جنوری کے دوران گڈز این سروسز کی برآمدات 17 ارب 2 کروڑ 35 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 21 ارب 66 کروڑ ڈالر تھیں، جو کہ 4 ارب 4کروڑ 32 لاکھ یا 25 فیصد زیادہ ہے۔
گڈز این سروسز کی درآمدات رواں مالی سال کے پہلے 7 مہینوں میں 53 فیصد بڑھ کر 49 ارب 17 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 32 ارب 53 لاکھ ڈالر تھیں۔
مزید پڑھیں:رواں مالی سال کے 5 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7 ارب ڈالر تک جاپہنچا
حکومت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بڑھتے ہوئے حجم سے مایوس ہے اور بیرونی کھاتوں کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزید قرض لینے پر مجبور ہے۔
ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری گزشتہ کئی برسوں سے کم رہی، بڑے تجارتی فرق کا مقابلہ کرنے کے لیے برآمدات کو بھی کسی قابل قدر رقم تک نہیں بڑھایا سکا۔
27 ارب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی فرق کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات کی تقریباً پوری رقم درکار ہے لیکن رواں سال قرض کی ادائیگیوں کے لیے تقریباً 13 سے 15 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جائے گا، سابق معاون خصوصی
حکومت رواں مالی سال 22 کے آخر تک ترسیلات زر کے ذریعے تقریباً 30 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے پر امید ہے جبکہ اسے 7 ماہ میں پہلے ہی 18 ارب ڈالر موصول ہو چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک ٹارگٹڈ ترسیلات حاصل کر سکتا ہے لیکن کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑھتا ہوا خسارہ اس کے لیے پریشان کن ہے۔
ذخائر میں کمی
مرکزی بینک نے بتایا ہےکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ کے ذخائر 18 فروری کو ختم ہونے والے ہفتے میں 28 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کم ہو کر 16 ارب 81 کروڑ ڈالر ہو گئے، جو گزشتہ ہفتے 17 ارب ایک کروڑ ڈالر تھے۔
ملک کے مجموعی ذخائر بھی ہفتے کے دوران 23 اور 49 کروڑ ڈالر سے کم ہو کر 23 ارب 22 کروڑ ڈالر ہو گئے جبکہ کمرشل بینکوں کے فاریکس ہولڈنگز 6 ارب 39 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 6 ارب 41 کروڑ ڈالر ہو گئے۔
'قرض کی مد میں 4 بلین ڈالر ادا کیے گئے'
اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ مالی سال 2022 کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں پاکستان نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں بیرونی قرضوں کی مد میں دگنی سے زیادہ ادائیگی کی ہے۔
پاکستان نے اکتوبر تا دسمبر مالی سال 2022 کے دوران قرض کی مد میں 4 ارب 74 لاکھ ڈالر ادا کیے جو کہ اسی مدت کی پہلی سہ ماہی میں ایک ارب 6 کروڑ 59 لاکھ ڈالر تھے۔
مزید پڑھیں: معیشت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دباؤ سے نکل سکتی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
رواں مالی سال کے آغاز میں حکومت نے کہا تھا کہ ملک کو قرض کی مد میں تقریباً 20 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
قرضوں کے بھاری بوجھ، بڑھتے ہوئے درآمدی بل اور بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے علاوہ آئی ایم ایف کے شکنجے میں پھنسی حکومت کے لیے قرض کی ادائیگی ایک سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔
'قومی بچت کی اسکیم لیکویڈیٹی کو متحرک کرنے میں ناکام'
قومی بچت کی اسکیم حکومت کے لیے زیادہ پرکشش نہیں رہی کیونکہ یہ اسکیموں کے ذریعے لیکویڈیٹی کو متحرک کرنے میں ناکام رہی ہے۔
رواں مالی سال کا تازہ ترین ششماہی ڈیٹا جولائی تا دسمبر ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 9 ارب 9 کروڑ روپے کے اخراج کے مقابلے میں خالص اخراج 10 ارب 4 لاکھ 30 ہزار تک پہنچ گیا۔
تاہم حکومت نے این ایس ایس کے منافع کی شرحوں میں موجودہ مہینے کے دوران ایک کٹوتی متعارف کرائی جو اسٹیک ہولڈر کے لیے خاص طور پر اس وقت متاثر ہو رہی تھی جب افراط زر زیادہ ہے اور گزشتہ ماہ پالیسی انٹرسٹ ریٹ میں بھی اضافہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سالانہ ہدف سے متجاوز
حکومت نے مالیاتی اداروں اور کارپوریٹ سیکٹر کو قومی بچت اسکیم میں سرمایہ کاری کرنے سے روک دیا ہے جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری ہوئی جبکہ اداروں نے اپنی سرمایہ کاری واپس لینا بھی شروع کر دی ہے۔
4 فروری کو تمام اسکیموں کے نرخوں پر نظر ثانی کی گئی۔
ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس، بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس ، پنشنرز کے بینیفٹ اکاؤنٹس ، شہدا کے فیملی ویلفیئر اکاؤنٹس، ریگولر انکم سرٹیفکیٹس، شارٹ ٹرم سیونگ سرٹیفکیٹس، اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس، سپیشل سیونگ اکاؤنٹس اور سیونگ اکاؤنٹس پر شرح منافع کو نظرِ ثانی کر کے کم کردیا گیا ہے۔
ریگولر انکم سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح میں 48 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے 10.32 فیصد کر دیا گیا۔
بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس کی شرح میں 72 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے 12.24 فیصد کردیا گیا اور اسپیشل سیونگ سرٹیفکیٹس پر منافع کو 40 بیسس پوائنٹس کم کرکے 10 فیصد کردیا گیا۔