• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وزیر اعظم سے پہلے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے، خورشید شاہ

شائع February 24, 2022
خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانگ مارچ کے دوران لانے پر مشاورت ہورہی ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز
خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد لانگ مارچ کے دوران لانے پر مشاورت ہورہی ہے— فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما خورشید احمد شاہ نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے کردار کو گھناؤنا قرار دیتے ہوئے تجویز دی ہے کہ وزیر اعظم سے پہلے اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔

سکھر کے ڈپٹی کمشنر آفس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اس وقت جب یوکرین پر حملہ کیا جارہا ہے ایسے میں روس کا دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

مزیدپڑھیں: تحریک عدم اعتماد، درکار اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے اپوزیشن بھرپور سرگرم

وزیراعظم کے دورہ روس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے دنیا میں تاثر جائے گا کہ اس حملے میں ہم بھی شریک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان یا مسلم لیگ (ق) کی تحریک عدم اعتماد میں ساتھ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عمران خان کی موجودگی میں بھی تحریک انصاف میں ایسے لوگ شامل ہیں جو محب وطن ہیں اور پاکستان سے پیار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشاورت کی جارہی ہے کہ پی پی پی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے لانگ مارچ کے دوران عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے تاہم فیصلہ ایک دو روز میں عوام کے سامنے آجائے گا۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارا لانگ مارچ اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ مہنگائی کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ شماریات کے مطابق ساڑھے تین سال میں ملک میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے ملنے کے باوجود ہم نے اس حکومت کو کام کرنے دیا مگر اس نے ملک کا جو حشر کر دیا ہے و ہ سب کےسامنے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کیلئے درکار تعداد سے زیادہ لوگوں سے رابطے میں ہے، رانا ثنااللہ

پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں لانگ مارچ کے بعد جلسہ ہو گا، جہاں مطالبات حکومت کے سامنے رکھے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کے درمیان رابطے جاری رہنے چاہئیں اور ریاست پر جب بات آئے تو عمران خان سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ریاست کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ شیخ رشید آج کل خاموش ہیں لیکن ان کے لیے کچھ بول کر اس کا مخالف نہیں بننا چاہتا۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو حتمی شکل دینے کے لیے اپوزیشن قیادت گزشتہ روز لاہور میں خوب متحرک اور سرگرم رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی پی پی کی اعلیٰ قیادت آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ماڈل ٹاؤن میں ان کے گھر میں ملاقات کی اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعےملاقات میں شرکت کی۔

پی پی پی رہنماؤں کی آمد سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے شہباز شریف سے علیحدہ ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اراکین کی تعداد سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 16، پی پی پی نے 6 اور جمعیت علمائے اسلام نے پی ٹی آئی کے 2 اراکین قومی اسمبلی کے نام پیش کیے، جن کے بارے میں یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انہوں نے ان اراکین کا اعتماد حاصل کرلیا ہے اور وہ اراکین قومی اسمبلی اب کپتان عمران خان کے خلاف جانے کے لیے تیار ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سلیکٹڈ کے بطور وزیر اعظم صرف 20 دن رہ گئے ہیں، انہوں نے اعلان کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے لیے نمبرز گیم مکمل ہو گیا اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان

اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتوں کی اہم ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی قیادت چوہدری شجاعت حسین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے گلبرگ میں ان کے گھرمیں ملاقات کی۔

ملاقات میں انہوں نے چوہدری برادران کو اپوزیشن کے منصوبوں کے بارے میں بتایا اور ان کی حمایت طلب کی۔

دوسری جانب سابق صدر آصف زرداری نے بلاول ہاؤس میں پرویز الٰہی، مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزرا مونس الٰہی ، طارق بشیر چیمہ، ایم این ایز سالک حسین، حسین الٰہی ، راسخ الٰہی اور شفیع حسین کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔

ملاقات میں انہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ اپوزیشن کی حمایت کرنے سے انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کے امیدواروں اور عمران خان کی حمایت کرنے والوں کو آئندہ انتخابات میں عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے مشاورت سے فیصلے کرنے پر اتفاق کیا، دونوں جماعتوں کی قیادت نے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا، ملاقات میں ملکی سیاسی صورت حال اور باہمی دلچسپی کے دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024