کیا آپ ڈاکٹر مہدی حسن کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں؟
صحافی، استاد، دانشور، انسانی حقوق کے رہنما، محقق ڈاکڑ مہدی حسن کا شمار پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو جرأتِ اظہار کی وجہ سے اپنی اک منفرد پہچان رکھتے تھے۔
ان کی فکر اور خیالات اور طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ان کے علم، جرأت اور طلبہ سے تعلق بنانے کے تو دوست دشمن سب قائل تھے۔
27 جون 1937ء کو مہدی حسن برٹش پنجاب کے تاریخی شہر پانی پت میں پیدا ہوئے جو جنگ و جدل کی وجہ سے مسلم اور ہندو بیانیوں میں شہرت رکھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی شہر کی تاریخ سے متاثر رہے۔
ان کے والد محکمہ مال سے وابستہ رہے اور 1947ء کے بعد پنجاب کی مذہبی تقسیم کی وجہ سے ان کا گھرانہ واہگہ پار کرکے منٹگمری چلا آیا جہاں ان کے والد نائب تحصیلدار رہے۔ والد کی دو بیویاں تھیں، پہلی سنی العقیدہ تھی تو دوسری اہل تشیع کہ اسلام کے متفرق عقائد سے ان کا واسطہ گھر سے ہی پڑا۔
منٹگمری جو پاکستان بننے کے 19 سال بعد ساہیوال ہوگیا اس کے بھی وہ گواہوں میں ایک تھے۔ پنجاب کی پرانی مسلم روایت کے عین مطابق اس گھرانے کو فارسی پر عبور تھا کہ ساہیوال میں آج بھی مہدی حسن کے بھائی اپنے پنجابی اور اردو جملوں میں فارسی جڑنے میں شہرت رکھتے ہیں۔
خواجہ عنصر حسن ان کے سوتیلے بھائی تھے جن کی سول سرونٹ بیٹی مشہور ترقی پسند فتحیاب علی خان کی بیگم ہیں۔ مہدی حسن اپنے والد کی دوسری بیگم کی اولاد تھے جو اہلِ تشیع برادری سے تعلق رکھتی تھیں۔
آپ کے دو بڑے بھائی خواجہ احمد حسن اور خواجہ اظہر حسن انتقال کرچکے ہیں اور 3 چھوٹے بھائی ونگ کمانڈر خواجہ جعفر حسن، خواجہ عسکری حسن اور مظفر حسن حیات ہیں۔
جو بھائی ایئرفورس میں رہے انہوں نے جنرل ضیا سے متعقہ لگایا تو دوسرے بھائی خواجہ عسکری حسن 1970ء میں ساہیوال سے پیپلزپارٹی کے رہنما تھے اور پھر ضلعی صدر بھی بنے اور 1976ء میں پارٹی ٹکٹ پر ایم پی اے بھی بنے اور ایک زمانے میں غنویٰ بھٹو کے ساتھ بھی گئے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی بہن میمونہ کلثوم بعد میں مشہور اینکر و صحافی نصرت جاوید کی ساس تھیں۔ ڈاکٹر مہدی حسن کو جاننے کے لیے اس سماجی پچھوکڑ کے علاوہ کچھ مزید باتیں بھی اہم ہیں۔
ساہیوال میں اس گھرانے کے گھر بوستان نامی احاطہ میں ہیں۔ خود مہدی حسن گورنمنٹ ہائی اسکول منٹگمری سے پڑھے جو اب اے پی ایس اسکول بن چکا ہے مگر یہ وہی اسکول ہے جسے گولڈن جوبلی اسکول کہا جاتا تھا کہ یہ ملکہ کی 50 سالہ سالگرہ پر 1864ء میں بنایا گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب سے متعلق چھپے ایک مقالے کی مصنفہ کے بقول ڈاکٹر مہدی حسن کی ابتدائی زندگی میں 2 واقعات کی اہمیت رہی کہ جس میں ڈاکٹر اللہ دتہ نسیم اور منیر نیازی شامل تھے۔
ڈاکٹر اللہ دتہ نسیم 1948ء میں اردو میں پی ایچ ڈی کرنے والے اوّلین طالب علم تھے جن کا مقالہ خواجہ میر درد پر تھا اور ان کے سپروائزر عبدالماجد دریابادی تھے۔ ہشیار پور سے آئے یہی اللہ دتہ نسیم مہدی حسن اور ان کے بھائیوں کے وہ استاد تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب خوب یاد کرتے تھے۔
وہ کہتے تھے کہ مجھے بنانے میں اللہ دتہ نسیم کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہشیار پور سے ساہیوال آکر بسنے والے پنجابی منیر نیازی نے 1957ء کے آس پاس ساہیوال جیسے پچھڑے ہوئے شہر میں ترقی پسند کتب کی دکان کھولی تھی۔ مہدی بتاتے ہیں کہ ان کے بڑے بھائی خواجہ اظہر حسن اور بہن میمونہ کلثوم کی منیر سے دوستی بھی تھی اور یہ دونوں اس دکان سے جو ترقی پسند کتب وغیرہ لاتے تھے وہ میں بھی پڑھ لیتا تھا اور یوں مجھے بہت سی باتیں سمجھ آنے لگیں۔
ساہیوال کالج سے فارغ ہونے کے بعد وہ لاہور آگئے اور پھر انہی دنوں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم پڑھا بھی اور اخباری صنعت سے وابستہ بھی ہوگئے۔
1967ء میں وہ پنجاب یونیورسٹی میں استاد بھرتی ہوگئے۔ 50 سال تک آپ نے صحافت کے استاد کی حیثیت میں پہلے پنجاب یونیورسٹی اور بعدازاں ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھایا۔ اس کے علاوہ ریڈیو، اخبارات کے لیے کام کیا، پی ایچ ڈی بھی کیا اور امریکا جا کر بھی اپنے علم کا لوہا منوایا۔
یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر مہدی حسن کا شمار ان اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف ضیا شاہی کو بھگتا بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کی جارحیت کا مقابلہ بھی کیا۔ 2010ء کے بعد وہ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کے چیئر پرسن بھی بنے اور تادمِ مرگ اس عہدے پر کام کرتے رہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن 85 برس کی عمر میں گزشتہ دنوں پورے ہوگئے۔ انہوں نے بلاشبہ ایک بھرپور زندگی گزاری۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ ان میں بہت سے مداح بھی ہیں تو ان کے ناقدین بھی شامل ہیں۔ ان کی کتب اور تجزیوں سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، مگر اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ڈاکٹر مہدی حسن کو جانتے ہیں؟ کیا ہم ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور سیاسی و صحافتی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے ناقدانہ تعریف کرسکتے ہیں؟
تبصرے (2) بند ہیں