ملک میں بے چینی پھیل رہی ہے، پیکا آرڈیننس واپس لیں، وفاقی وزیر کا عمران خان کو خط
حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر سید امین الحق نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس واپس لینے کے لیے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ دیا۔
انہوں نے خط میں کہا ہے کہ ترامیم میں بلاضمانت گرفتاری اور فیک نیوز کی تشریح نہ ہونے سے ملک میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے لکھا ہے کہ پیکا ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کی گئیں، اس لیے وہ ان ترامیم سے متفق نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: 'پیکا' ترمیمی آرڈیننس 2022 اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹس میں چیلنج
سید امین الحق نے تجویز دی ہے کہ صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں و ماہرین کی رائے لی جاتی تو آرڈیننس میں بہتر ترامیم کی جاسکتی تھیں، صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے، ہر حکومت میڈیا سے اپنے تعلقات کا مزہ لیتی رہی ہے۔
وزیر اعظم کو ارسال کردہ خط میں وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ ترمیمی آرڈیننس کی وجہ سے صحافی و صحافتی اور میڈیا تنظیمیں حکومت کے خلاف ہورہی ہیں جبکہ بغیر مشاورت کے جاری کردہ آرڈیننس کے خلاف صحافتی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔
امین الحق نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کے اتحادی ہیں لیکن عوام کے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم سے ہمارا تعلق اہم ہے اور ایم کیوایم کے انداز سیاست میں بنیادی حقوق کے خلاف قوانین کی حمایت کسی صورت شامل نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
وفاقی وزیر آئی ٹی کا کہنا تھا کہ ترمیمی آرڈیننس حکومت کے لیے عوامی حمایت اور آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے، امید ہےکہ وزیر اعظم صحافتی تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کےبعد نئی ترامیم جاری کریں گے۔
پیکا آرڈیننس
خیال رہے کہ پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی وژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔
جعلی خبر چلانے پر اب پانچ سال قید کی سزا ہو گی۔
جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا آرڈیننس میں ہتک عزت سے متعلق ترمیم، عدالتی حکم سے متضاد
ٹرائل کورٹ کو مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر کرنا ہوگا اور مقدمے کے حوالے سے ٹرائل کورٹ ہر ماہ متعلقہ ہائی کورٹ کو آگاہ کرے گی۔
ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔
ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔
مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کریں گے، یوسف رضا گیلانی
مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔
قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔