اسلام آباد ہائی کورٹ: ایف آئی اے کو پیکا کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاری سے روک دیا گیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاری کرنے سے روک دیا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’ زمبابوے اور یوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال چکے ہیں‘۔
پی ایف یو جے کی جانب سے وکیل عادل عزیز قاضی عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ 17 فروری کو سینیٹ کا اجلاس ختم ہوا اور 18 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا لیکن اجلاس کو اس لیے ملتوی کردیا گیا کہ آرڈیننس لانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:'پیکا' ترمیمی آرڈیننس 2022 اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹس میں چیلنج
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آرڈیننس کے ذریعے پیکا کے کس سیکشن میں ترمیم کی گئی ہے؟
وکیل عادل عزیز قاضی نے عدالت کو بتایا کہ سیکشن 20 میں ایک ترمیم کے علاوہ نئی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکشن 20 میں کیا ترمیم کی گئی ہے؟جس پر وکیل نے بتایا کہ سزا کی مدت 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کردی گئی ہے۔
دورانِ سماعت ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو پیکا سیکشن 20 کے تحت گرفتاری کرنے سے روکتے ہوئے حکم دیا کہ ایف آئی اے پیکا سیکشن 20 کے تحت کوئی گرفتاری نہیں کرے گی۔
مزید پڑھیں: جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم
عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے نے ایس او پیز پہلے ہی جمع کرا رکھے ہیں، جن کے مطابق سیکشن 20 کے تحت گرفتاری نہیں ہوگی۔
عدالت نے قرار دیا کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے اور سیکریٹری داخلہ ذمہ دار ہوں گے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ زمبابوے اور یوگنڈا بھی ہتک عزت کو فوجداری قانون سے نکال چکے ہیں۔
بعدازاں عدالت نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کےخلاف درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل جواب طلب کرلیا۔
پیکا میں ترمیم کے خلاف درخواست
پی ایف یو جے کے صدر جی ایم جمالی اور سیکریٹری جنرل رانا عظیم کی ہدایت پر رضوان قاضی نے وکیل عادل عزیز قاضی کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ حکومت نے پیکا قوانین میں آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کی جبکہ 17 فروری تک ایوان بالا کا اجلاس جاری تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے مسودہ پہلے ہی تیار کرلیا تھا، حکومت نے قانون سازی سے بچنے کے لیے سیشن ختم ہونے کا انتظار کیا، قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو طے تھا جسے آخری لمحات میں مؤخر کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ موجودہ حکومت کے دور میں میڈیا کو بند کیا جا رہا ہے، صحافیوں پر غیر اعلانیہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں، پیکا قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کرنے کے لیے کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی، قانون سازی کے لیے رائج طریقہ کار سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے جلد بازی حکومت کے مذموم مقاصد ظاہر کرتی ہے، ملک میں آزادی اظہار کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، صحافیوں کو اسی قانون کے تحت غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا تھا جس میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت بنایا گیا۔
درخواست میں میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کوئی بھی ملک آمرانہ طرز عمل سے نہیں چل سکتا جہاں عوام کو اظہار رائے کے بنیادی حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں قید کیا جائے، آزادی اظہار رائے کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، نیا ترمیمی آرڈیننس لانے کا مقصد صرف مخصوص صحافت کا فروغ اور تنقید کی حوصلہ شکنی ہے۔
مزید پڑھیں:صحافیوں کے تحفظ کا بل، نیب ترمیمی آرڈیننس سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا احتجاج
درخواست میں مزید کہا گیا کہ پیکا قانون میں ترمیم کے آرڈیننس کے اجرا کے لیے کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی، پیکا قانون میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاسکتا تھا، کوئی بھی ملک حکومتوں کے آمرانہ طرز عمل سے چل نہیں سکتا جہاں عوام کو صرف اظہار رائے کے اپنے بنیادی حق کو استعمال کرنے کی پاداش میں قید کیا جائے۔
درخواست میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملک میں آزادی اظہار کا قتل ملک میں جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، پیکا قانون میں یہ ترمیم حکومت کی طرف سے اپنے مخالفین کو شکست دینے کی ایک خام کوشش ہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پیکا قانون اور اس میں ترمیم کو آئین پاکستان اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا جائے۔