اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو 24 فروری کو سنایا جائے گا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے کی جس کے دوران مدعی اور ملزمان وکلا نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
واضح رہے کہ 27 سالہ نور کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس کے بارے میں وہ تمام معلومات جنہیں جاننے کی ضرورت ہے
واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔
عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔
ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل ہیں۔
قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی۔
پروسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا، وکیل مدعی
آج ہونے والی سماعت میں مدعی کے وکیل نثار اصغر نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جرح کے دوران وکیل دفاع نے عدالت کے تقدس کو بھی نہیں چھوڑا جبکہ تفتیشی افسر نے جو کہا وہ اسلام آباد کے ایس او پیز ہیں جو کہ پنجاب سے مختلف ہیں۔
وکیل نے کہا کہ جو وقت لکھا ہوا ہے وہ لاش وصول کرنے کا ہے پوسٹمارٹم کا وقت نہیں، اگر ہم نے پوسٹ مارٹم میں دیر کی ہے تو اس کا مقصد کیا تھا یہ وکیل دفاع نے نہیں بتایا، 24 جولائی کو جب جسمانی ریمانڈ کے دوران ظاہر جعفر کو پیش کیا گیا تو اس کے وکیل موجود تھے انہوں نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا کہ 23 جولائی کو پیش کرنا تھا 24 کو کیوں پیش کیا گیا۔
نثار اصغر کا کہنا تھا کہ عدالتی ریکارڈ دیکھ لیں انہوں نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا، ڈاکٹر انعم کے سیمپل لینے پر دستخط موجود ہیں یہ اعتراض درست نہیں، کیمیکل ایگزیمنر کی رپورٹ بھی بہت کچھ کہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوکت علی مقدم کو 10 بج کر 4 منٹ پر آگاہ کیا گیا جبکہ پمز ہسپتال میں 8 بج کر 49 منٹ پر آر ٹی اے لکھوائی گئی، امجد زخمی ہونے سے پہلے پرائیوٹ ہسپتال میں گئے انہوں نے کہا ہم میڈیکل نہیں کرتے۔
مزید پڑھیں: نور مقدم کے والد نے بیان ریکارڈ کرادیا، ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا مطالبہ
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہا گیا کہ شوکت مقدم بااثر تھا اس لیے اس نے گرفتار کرایا ہے، مدعی کا پریشر ہوتا تو اس گھر کو باہر سے کنڈی لگا دیتے لیکن لوگ آ اور جا رہے تھے ہمیں تو نام بھی نہیں معلوم تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ ان کے دلائل تھے کہ ذاکر اور عصمت کی حد تک کسی تفتیشی کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا، ملزم کو 24 جولائی کو گرفتار جبکہ کال ڈیٹا کی شہادت 27 کو ملی، خود مانتے ہیں کراچی سے 3 مرتبہ آئے، تھانے گئے پولیس کو لائسنس دیا پھر اس نے ان کو چھوڑ دیا۔
وکیل نے کہا کہ ملزم کے والدین کے بارے میں ان کے وکیل کہتے ہیں وہ موقع پر نہیں تھے، تھراپی ورکس کے لوگ تو جائے وقوع پر تھے، انہوں نے طاہر ظہور کو بتایا، تھراپی ورکس کے ملازمین موقع پر تھے ڈیڑھ کلو میٹر دور تھانہ موجود ہے، کہا گیا سب کچھ تھانے میں بیٹھ کر کیا گیا اگر تھانے میں ہوتا تو ان کے اندر خوبصورتی نظر آتی لکھائی بھی ایک ہوتی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کہا گیا تھا نور اور ظاہر جعفر 'لیو ان' تعلقات میں تھے یہ ان کی اپنی بات ہے، ڈی وی آر سے کوئی بندہ ثابت کرسکے کہ یہ فلاں بندہ ہے، سی ڈی آر کے متعلق کوئی رول کوئی ضابطہ نہیں، گواہ محمد جابر کہتا ہے میں نے ایس ایس پی دفتر کی لیب سے ڈیٹا اکٹھا کیا، شوکت کی ان سب کے ساتھ دشمنی ہے لیکن جابر کی ان کے ساتھ کیا دشمنی ہے۔
وکیل نثار اصغر نے کہا کہ سی سی ٹی وی میں ظاہر زبردستی نور کو کمرے میں لے کر جاتا ہے، پہلی دفعہ باہر نکلی تو چوکیدار نے دروازہ بند کردیا، اگر پارٹی ہورہی تھی تو کسی نے دفاع نہیں کیا جبکہ ملزم کے مطابق وہ ان کے دوست تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 20 جولائی کو 7 بج کر 12 منٹ پر نور فرسٹ فلور سے چھلانگ لگاتی ہے، ہمارا کیس بیسمنٹ میں جاتا ہی نہیں، ان کا اگر جاتا ہے تو مجھے معلوم نہیں، 16 گھنٹے 31 منٹ کی ویڈیو ہے اس کے اندر پارٹی کرا دیں 8 کیمرے ہیں سب چلا دیں۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع
دلائل جاری رکھتے ہوئے وکیل نثار اصفر نے مزید کہا کہ تفتیشی کو نالائقی کا سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں بدنیتی کا نہیں۔
مدعی کے وکیل شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی آر، سی ڈی آر، فرانزیک اور ڈی این اے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں، تمام شواہد سائنٹیفکلی شامل کیے گئے ہیں، ملزمان کے خلاف پروسیکیوشن نے کیس ثابت کردیا، عدالت ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے۔
مقتولہ کے ناخنوں کے اندر تک ظاہر کا ڈین این اے میچ ہوا ہے، پراسیکیوٹر
پراسیکیوٹر رانا حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک باپ کی اس وقت کیا حالت ہوگی جب وہ اپنی بیٹی کی سر کٹی لاش دیکھے گا، ملزمان کے وکلا نے الزام لگایا کہ شوکت مقدم نے خون میں لت پت لاش کے حوالے سے بیان نہیں دیا، سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ظاہر جعفر جائے وقوع سے گرفتار ہوا۔
رانا حسن نے کہا کہ ڈی وی آر کو مستند قرار دیاگیا ہے اور آخری ثبوت کے طور پر لیا گیا ہے، مرکزی ملزم ظاہرجعفر جائے وقوع سے آلہ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا ہے، مرکزی ملزم ظاہرجعفر کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا جس کے بعد کوئی شک رہ ہی نہیں جاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات مانی گئی ہے کہ نور مقدم کا قتل ہو چکا تھا، جب سر کو جسم سے الگ کردیا گیا تو مطلب خون کی روانی نہیں ہوگی اور قتل ہوگیا ہے، پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے ڈی وی آر کو منظور کیا کہ اس میں کوئی ایڈیٹنگ نہیں ہوئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نورمقدم نے جب چھلانگ ماری تو وہ ٹھیک طرح چل بھی نہیں پارہی تھی، یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں موجود موبائل فون کی وضاحت نہیں دی، 4 سے 5 بندے جو ڈی وی آر میں نظر ارہے وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے نام ہیں اور ہم موجود تھے۔
مزید پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار
رانا حسن نے کہا کہ ملزمان کے وکلاء نے سی ڈی آر کو ماننے کا اعتراف کیا، ملزم کے وکیل نے کل خود طاہر ظہور اور ذاکر جعفر کے درمیان میسجز شیئر کیے، سی ڈی آر کے مطابق ظاہر جعفر اپنے والد اور والدہ کو خود کال کر کے اپڈیٹ کر رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 7 بج کر 29 منٹ پر ظاہر جعفر نے والد ذاکر جعفر کو 46 سیکنڈز کی کال کی اور قتل کے بارے میں بتایا، بیٹے اور والد کے درمیان آخری کال کے بعد صرف طاہر ظہور اور ذاکر جعفر کے درمیان کالز ہوئیں، تھراپی ورکس کا بندہ زخمی ہوا انہوں نے ڈیڈ باڈی دیکھی لیکن پولیس کو آگاہ نہیں کیا، انہوں نے ملزم کو باندھ کر لے جانا تھا لیکن پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ فرانزک رپورٹ اس کیس کو مزید مضبوط کرتی ہے، مقتولہ کے ناخنوں کے اندر تک ظاہر کا ڈین این اے میچ ہوا ہے، سگریٹ کے چاروں ٹکڑے میچ کرتے ہیں، پہلی رپورٹ میں ایک اور ڈی این اے آیا پھر باقی 9 ملزمان کے سیمپل لیے تو امجد کا سیمپل میچ کر گیا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ نکل پنچ (آہنی پنجے) پر بھی نور مقدم کا خون ملا تھا،سوئس چاقو پر بھی میچ ہو گیا، ٹوتھ پک، سوئس نائف، ہینڈل اور جہاں جہاں سے خون کا سیمپل لیا نورمقدم کا خون ثابت ہوا، ظاہرجعفر کا فوٹوگریمیٹک ٹیسٹ ہوا اور میچ ہوا جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا جبکہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق نور مقدم کے پھیپھڑوں میں ڈرگ اور زہر ڈیٹیکٹ ہوا ہی نہیں۔
پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام کیسے چل رہا ہے، نورمقدم قتل کیس کو عدالت ایک مثالی کیس بنائے اور ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔
ہمیں شک کا فائدہ ملنا چاہیے، وکیل عصمت آدم
ملزمہ عصمت آدم کے وکیل اسد جمال نے جوابی دلائل دیتے ہوئے مختلف عدالتوں کے حوالے پیش کیے اور کہا کہ سپریم کورٹ نے دو فیصلوں میں ایک ہی بات کہہ چکی ہے، پراسیکیوشن کا کیس تھا کہ ملزمان کی آپس میں گفتگو ہو رہی ہے، سپریم کورٹ نے کال ڈیٹا ریکارڈ کو ڈسکارڈ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت تمام 12 ملزمان پر فرد جرم عائد
وکیل نے کہا کہ یہ کہتے ہیں ایس پی دفتر سے ڈیٹا جنریٹ ہوا کس رول کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں، ہمارے خلاف چارج فریم کیا گیا کہ ہم ملزمان کے ساتھ رابطہ میں تھے، اب اس کو ثابت کریں کہ قتل کے متعلق والدین کو معلوم تھا، سیکشن 94 کال ڈیٹا سمن کے لیے رکھا گیا ہے لیکن ایس پی کے پاس ڈیٹا موجود ہے تو پھر سیکشن 94 ختم کر دیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کال ڈیٹا تھرڈ پارٹی نے جنریٹ کیا ہے، اس پر فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے، پرائیویسی سے متعلق بےنظیر بھٹو کا کیس سپریم کورٹ میں آیا تھا، فون ٹیپنگ کا معاملہ تھا آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، ڈیٹا ریکارڈ حاصل کرنا ہے تو پراپر چینل کے ذریعے حاصل کرنا چاہیے، ہمیں شک کا فائدہ ملنا چاہیے۔
اسد جمال نے کہا کہ ایک سے ڈیڑھ ماہ تفتیش چلتی رہی لیکن کال ڈیٹا کی بات نہیں کی، ہم نے تو کال ڈیٹا ریکارڈ کو مانا ہی نہیں ہے، سوال کیا گیا نور مقدم کی والدہ کو شامل تفتیش کیا گیا، پروسیکیوشن کے گواہ نے ہی یہ بتایا لیکن اس کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا۔
مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل شہریار نواز کے عدالت کے سامنے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پروسیکیوشن نے کہا کہ ہر چیز پر ظاہرجعفر کے فنگر پرنٹس ہیں لیکن پروسیکیوشن اب تک جواب نہیں دے پائی کہ آلہ قتل پر ظاہر کے فنگر پرنٹس کیوں نہیں ہیں۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پروسیکیوشن سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مقتولہ نورمقدم کی والدہ کو کیوں شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔
ملازمین کو کیس میں ملوث کر کے ان کے بچوں کا معاشی قتل کیا گیا، وکیل
ظاہر جعفر کے گھر کے تین ملازمین افتخار، جان محمد اور جمیل کے وکیل سجاد بھٹی نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ظاہرجعفر اور نور مقدم گیٹ سے آتے جاتے ہیں اور چوکیدار افتخار نے گیٹ بند بھی کیا اور کھولا بھی، ملازم کو تھوڑی پتا ہے کہ ظاہر جعفر اور نور مقدم کے درمیان کیا چل رہا ہے۔
مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: مجھے اور میرے والدین کو مقدمے میں غلط پھنسایا گیا، ظاہر جعفر
وکیل نے کہا کہ افتخار نے ظاہر جعفر کے والدین کو کال کر کے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری پوری کی، تیراپی ورکس کے ملازمین شہادت کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس آگئی، افتخار ،جان محمد اور جمیل کا واقع میں ملوث ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
سجاد بھٹی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مقتولہ نورمقدم واش روم بند کر کے بھی کسی کو کال کر کے بتا سکتی تھی لیکن اس نے کوئی کال نہیں کی، ڈی وی آر کے کیمرہ جات بھی ریکوور نہیں کیے گئے، کیا پورے شہر کو نور مقدم قتل کیس میں پھانسی دے دی جائے؟
وکیل نے کہا کہ ظاہر جعفر سے جمیل، نہ افتخار اور نہ ہی جان محمد کی کوئی بات ہوئی، مقتولہ نورمقدم نے بھی کسی کو نہیں کہا کہ ہٹ جاؤ مجھے گھر سے باہر جانا ہے، جان محمد، افتخار اور جمیل کو کیس میں ملوث کر کے ان کے بچوں کا معاشی قتل کیا گیا۔
تمام وکلا کے دلائل اور جوابی دلائل مکمل ہونے کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو 24 فروری کو سنایا جائے گا۔
تفتیش سے مطمئن ہوں، والد نور مقدم
عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے کہا کہ ہم نے ملزمان کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا مانگی ہے، جج عطا ربانی پر ہمیں پورا بھروسہ ہے اور انہوں نے صاف شفاف ٹرائل کیا ہے۔
شوکت مقدم نے کہا کہ تفتیش سے مکمل مطمئن ہوں، تھوڑی بہت اونچ نیچ ہوجاتی ہے، پولیس پر پریشر رہا لیکن انہوں نے اپنی پوری تفتیش کی، حکومت کا ملازم رہا ہوں، بجٹ کا ہمیشہ بیس فیصد ملتا ہے۔
مقتولہ کے والد کا مزید کہنا تھا کہ مشکل وقت تھا لیکن اپنی بیٹی پر مکمل یقین تھا، نورمقدم نیک لڑکی تھی اور وہ کسی غلط چیز میں ملوث نہیں تھی، سی سی ٹی وی فوٹیج سے ثابت ہوا کہ نورمقدم کو یرغمال بنا کر رکھا گیا۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ رواں سال 20 جولائی کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف۔7/4 کے رہائشی سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی 27 سالہ نور کو قتل کر دیا گیا تھا۔
ظاہر ذاکر جعفر کے خلاف مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس کے تحت ملزم کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
بعدازاں عدالت میں پیش کردہ پولیس چالان میں کہا گیا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کے باعث نور مقدم نے جان بچانے کی 6 کوششیں کی جو ناکام رہیں۔
واقعے کے روز 20 جولائی کو ظاہر جعفر نے کراچی میں موجود اپنے والد سے 4 مرتبہ فون پر رابطہ کیا اور اس کے والد بھی اس گھر کی صورتحال اور غیر قانونی قید سے واقف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ 7 اکتوبر تک مؤخر
چالان میں کہا گیا کہ نور کی جانب سے ظاہر سے شادی کرنے سے انکار پر 20 جولائی کو دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے بعد مبینہ قاتل نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، چالان میں ملزم کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں اس نے قتل کا اعتراف کیا۔
ملزم نے بتایا کہ نور مقدم نے اس کی شادی کی پیشکش مسترد کردی تھی جس پر اس نے انہیں ایک کمرے میں بند کردیا، جبری قید پر وہ انتہائی غصے میں آگئیں اور ظاہر کو نتائج سے خبردار کیا۔
مقتولہ نے ظاہر کو دھمکی دی کہ پولیس میں جاکر اس کے خلاف شکایت درج کروائیں گی، بیان کے مطابق ملزم نے اپنے والدین کو واقعے سے آگاہ کیا اور ملازمین کو ہدایت کی کہ کسی کو اندر نہ آنے دیں نہ نور کو گھر سے باہر جانے دیں۔
چالان میں کہا گیا کہ نور کمرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور گھر کے مرکزی دروازے کی طرف بھاگیں لیکن سیکیورٹی گارڈ افتخار نے انہیں باہر نہیں جانے دیا، یہ وہ موقع تھا جب ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کے والدین کی درخواست ضمانت مسترد
کال ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے چالان میں کہا گیا کہ نور کو قتل کرنے سے قبل ظاہر نے دوپہر 2 بج کر 21 منٹ، 3 بجے، 6 بج کر 35 منٹ اور شام 7 بج کر 29 منٹ پر اپنے والدین سے رابطہ کیا۔
دوسری جانب شوکت مقدم کی درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ظاہر جعفر نے کال کر کے بتایا کہ نور اس کے ساتھ موجود نہیں۔
تاہم 20 جولائی کو رات 10 بجے انہیں کوہسار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بیٹی قتل ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں اس گھر پہنچا تو اپنی بیٹی کی گلا کٹی لاش دیکھی جس کے بعد پولیس میں شکایت درج کروائی‘۔
25 جولائی کو پولیس نے نور مقدم کے قتل کے ملزم ظاہر جعفر کے والدین اور گھریلو ملازمین کو شواہد چھپانے اور جرم میں اعانت کے الزامات پر گرفتار کیا تھا جنہیں بعد میں عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر جعفر کے والدین کا فرد جرم سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع
اس کے علاوہ اس کیس میں تھراپی ورکس کے مالک اور ملازمین بھی گرفتار ہوئے جنہیں عدالت نے 23 اگست کو رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
مقامی عدالت سے ظاہر جعفر کے والدین کی ضمانت مسترد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن 29 ستمبر کو ہائی کورٹ نے بھی ملزم کے والدین کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی تھی۔
جس پر انہوں نے 6 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
بعد ازاں 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی والدہ عصمت بی بی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا تھا۔
9 نومبر کو نور مقدم قتل کیس میں استغاثہ نے جائے وقوع کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا ٹرانسکرپٹ اسلام آباد سیشن کورٹ میں جمع کرادیا گیا تھا۔