جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹوں کی 'سوئس اکاؤنٹ' کے دعووں کی تردید
سابق پاکستانی انٹیلی جنس چیف جن کا نام غیر ملکی صحافیوں کے نیٹ ورک کی جانب سے جاری بینکنگ ڈیٹا 'سوئس سیکرٹس' لیک میں آیا تھا، ان کے بیٹوں نے سوئس بینکوں میں اپنے والد کے اکاؤنٹس کے حوالے سے کیے گئے دعووں کی تردید کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق سینیٹر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کا رکن رہنے والے ہارون اختر خان نے کہا کہ 'کریڈٹ سوئس' کے لیک ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر لکھی گئی خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے والد نے 1985 میں بینک اکاؤنٹ کھولا اور اکاؤنٹ میں بھاری مقدار میں رقم رکھی گئی تھی۔
جب تصدیق کرنے کے لیے ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خاندان کے کریڈٹ سوئس میں اکاؤنٹس ہیں، تو جواب میں ہارون اختر نے دعویٰ کیا کہ یہ اکاؤنٹس وجود نہیں رکھتے، ان کے ایک بھائی نے اپنا نام ظاہر نہ کیے جانے کا کہتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ جن ممالک نے افغانستان میں جنگ کی فنڈنگ کی ان میں سے کسی ملک نے بھی ان کے مرحوم والد پر رقم کے غلط استعمال کا الزام نہیں لگایا۔
یہ بھی پڑھیں: سوئس اکاؤنٹ لیک میں جنرل ضیاالحق کے انٹیلیجنس سربراہ کا نام بھی شامل
ان کا کہنا تھا کہ چاروں بھائی 1970 کی دہائی کے وسط میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان چھوڑ کر کینیڈا چلے گئے تھے، جبکہ ان کی تعلیم کا خرچ لاہور کے علاقے شادمان میں خاندان کی ملکیت ایک پلاٹ کی فروخت سے ہوا تھا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے کاروبار کا آغاز 1988 میں ایک سافٹ ڈرنک فیکٹری کی خریداری سے ہوا۔
اس کے علاوہ جیو نیوز کے پروگرام 'کیپیٹل ٹاک' میں شریک ہارون اختر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یا ان کا خاندان آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے پر غور کر رہے ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا، جی یہ آپشن بالکل کھلا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے بھائی ٹیکس ادا کرنے والے شہری ہیں، جن کے اثاثے مکمل طور پر ظاہر شدہ ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، مشترکہ کاروباری منصوبے، جوائنٹ وینچرز چلاتے ہیں، ہم بیرون ملک اشیا برآمد کرتے ہیں، ہمارے نام پر جاری کریڈٹ لیٹرز ہیں اور ہم دن رات بینکوں کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سوئس بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس کی صفائی شروع
ہارون اختر کا کہنا تھا کہ کہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ ان کے خاندان کا کاروبار اتنا کامیاب کیسے ہوا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک عام خیال ہے کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن فوج میں تھے، اس لیے ان کا ہمارے کاروباری مفادات کو فروغ دینے میں ضرور کوئی کردار رہا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میرے والد کا 1988 میں انتقال ہوگیا تھا، ہمارے کاروبار اور جنرل اختر کے درمیان کوئی تعلق نہیں تھا۔
او سی سی آر پی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کریڈٹ سوئس میں جنرل اختر عبد الرحمٰن خاندان کے دو اکاؤنٹس میں سے ایک اکاؤنٹ جنرل اختر کے تین بیٹوں کے نام پر مشترکہ طور پر تھا جو یکم جولائی 1985 کو کھولا گیا تھا۔
2003 تک اس اکاؤنٹ میں کم از کم 50 لاکھ سوئس فرانک (اس وقت کے 3 کروڑ 7 لاکھ ڈالر) تھے۔
دوسرا اکاؤنٹ جنوری 1986 میں جنرل اکبر کے نام پر کھولا گیا تھا جس کی مالیت نومبر 2010 تک 90 لاکھ سوئس فرانک (اس وقت کے 9 کروڑ 2 لاکھ ڈالر) سے زیادہ تھی۔
تبصرے (1) بند ہیں