'مخالف آوازیں دبانے کی کوشش' پر صحافتی تنظیموں کا حکومتی اجلاس سے واک آؤٹ
ایک متنازع آرڈیننس کے ذریعے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی مذموم کوشش کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے میڈیا اور صحافتی تنظیموں کے نمائندوں نے وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام کے ساتھ ہونے والے اجلاس سے واک آؤٹ کیا اور عزم ظاہر کیا ہے کہ جب تک آرڈیننس واپس نہیں لیا جاتا وزارت کے آئندہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق میڈیا کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) کے اجلاس سے واک آؤٹ کے بعد ان کی پوزیشن کی توثیق کرتے ہوئے ایچ آر سی پی نے اعلان کیا کہ ’وہ آزادی اظہار رائے کے لیے یکجہتی سے میڈیا کے ساتھ کھڑا ہے‘۔
علاوہ ازیں صحافی برادری اور سول سوسائٹی نے بھی سخت مؤقف اختیار کیا ہے، جبکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی حکومت کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا گیا ہے اور اس عمل کو مخالفین کی آواز پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا عزم کیا ہے۔
مزید پڑھیں: ایچ آر سی پی کا آزادی اظہار رائے کو محدود کرنے کی کوششوں پر سخت اظہار تشویش
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے جے اے سی کے رکن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ واک آؤٹ سے قبل انہوں نے وزیر اطلاعات کو بتایا کہ حکومت نے شیڈول اجلاس سے صرف ایک روز قبل صدارتی آرڈیننس لاکر ان کا اعتماد توڑا ہے۔
بعد ازاں جے اے سی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں حکومت کے ساتھ گفتگو کو ’ڈھونگ‘ قرار دیتے ہوئے ’سخت ترامیم‘ واپس لینے تک تمام تر گفتگو معطل کرنے کا اعلان کیا گیا۔
یاد رہے کہ جے اے سی آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹر، پی ایف یو جے، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرونکس میڈیا ایڈیٹر اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کے نمائندگان پر مشتمل ہے۔
جے اے سی نے مطلع کیا کہ ’وزیر اطلاعات، گفتگو کی آڑ میں صحافی برادری کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں اور آزادی اظہار کے خلاف آرڈیننس منظور کرتے رہتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ میڈیا برادری ساتھ ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں آزادیِ اظہار کی صورتحال بدتر ہوگئی، رپورٹ
جے اے سی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں وزارت خزانہ نے آزادی اظہار رائے کو دبایا اور صحافیوں کو رپورٹنگ کے حق سے روکنے کے لیے صحافت کو مالی طور پر معذور کیا۔
انہوں نے دہرایا کہ صحافی برادری پہلے بھی اس خطرناک رجحان کے خلاف حکومت کو تنبیہ کرچکی ہے جس سے حکومت، عوام اور صحافیوں کے درمیان خلا پیدا ہوگا۔
جے اے سی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’تمام صحافتی تنظمین آزادی اظہارِ رائے اور شہریوں کے معلومات کے حق کے دفاع کے لیے متحد کھڑی ہیں‘۔
غیر جمہوری قانون
ایچ آر سی پی نے ہتک عزت کے نئے قانون کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'ریاست کی تنقید' قرار دیا جس کی وجہ سے جیل کی سزا 2 سے 5 سال تک بڑھا دی گئی ہے اور اسے ایک ناقابل ضمانت جرم بنا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: میڈیا کو آزادی اظہار رائے پر مسلسل حملوں کا سامنا
ایچ آر سی پی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے مشاہدہ کیا کہ ’یہ قانون سازی صرف غیر جمہوری ہی نہیں بلکہ اس کا استعمال ناگزیر طور پر حکومت اور ریاستی اداروں کے ناقدین کو روکنے کے لیے بھی کیا جائے گا‘۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’حکومت اور تمام اداروں کے نمائندگان یہ بات یاد رکھیں کہ وہ عوام کے نمائندہ اور سرکاری ملازم ہیں اور شہریوں کے سامنے جوابدہ ہیں اور تنقید برداشت کرنا ان کی ملازمت کا حصہ ہے۔
اپوزیشن جماعتوں نے اس قانون کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی جانب سے میڈیا کی آزادی پر ایک اور حملہ قرار دیتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
ایک بیان میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے متنازع آرڈیننس، وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنی ’نااہلی اور جرائم‘ کو چھپانے کی ناکام کوشش قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’آزاد عدلیہ اور پارلیمنٹ کے لیے آزاد میڈیا ضروری ہے‘
انہوں نے کہا کہ آئین نے ہر شہری کو حکومتی کارکردگی کے حوالے سے اپنی رائے قائم کرنے اور اس کے اظہار کا حق دیا ہے، پیکا میں ترامیم کا مقصد شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ ان کی جماعت کالے قانون کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔
علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق اور پارٹی کی صوبائی سیکریٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پیکا میں ترمیم کرنے پر پی ٹی آئی کی سرزنش کی۔
سعد رفیق نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان گھر جارہے ہیں۔