مذہبی لباس کے بجائے اسکول میں یونیفارم کا حامی ہوں، بھارتی وزیرداخلہ
بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی لباس کے بجائے اسکول میں طلبہ کے یونیفارم پہننے کے حامی ہیں تاہم جب عدالت ریاست کرناٹک کے اسکولوں میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے فیصلہ کرے گی تو ان کا مؤقف بدل سکتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق 5 فروری کو ریاست کرناٹک کی جانب سے طلبا کے حجاب پر عائد کردہ پابندی نے مسلمان طلبا اور والدین کے مظاہروں کو جنم دیا تھا جس پر ہندو طلبا نے جوابی مظاہرے کیے تھے جس پر حکام نے مجبوراً وہاں کے اسکول بند کر دیے تھے۔
مزید پڑھیں: تصاویر: بھارت میں حجاب پر پابندی کے خلاف خواتین کا احتجاج
ہندوستان کی سوا ارب آبادی کے تقریباً 13فیصد پر مشتمل مسلمانوں نے حجاب پر پابندیوں کی مذمت کی تھی اور اس کے خلاف ملک گیر مظاہرے کیے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد بھارت کے سب سے طاقتور سیاستدان تصور کیے جانے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے نیٹ ورک 18 گروپ کو پیر کی رات انٹرویو میں کہا کہ وہ اس معاملے پر کسی بھی عدالتی فیصلے کو قبول کریں گے۔
امیت شاہ نے کہا کہ یہ میرا ذاتی عقیدہ ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو اسکول کے ڈریس کوڈ کو قبول کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بالآخر یہ طے کرنا ہے کہ ملک آئین پر چلے گا یا خواہشات پر، میری ذاتی رائے اس وقت تک برقرار رہ سکتی ہے جب تک عدالت فیصلہ نہیں کر دیتی اور جب عدالت فیصلہ دے تو مجھے اور سب کو اسے قبول کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج میں شدت
کرناٹک پر مودی اور امیت شاہ کی ہندو قوم پرست بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور بی جے پی کے رہنماؤں نے کچھ شمالی ریاستوں میں مرحلہ وار ووٹنگ کے لیے انتخابی ریلیوں میں حجاب کے تنازع کو جنم دیا ہے۔
کرناٹک کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ فیصلے کو چیلنج کرنے والے یہ ثابت نہیں کر سکے کہ حجاب پہننا ایک ضروری مذہبی عمل ہے۔
حجاب کے حوالے سے مقدمے کی مزید سماعت منگل کو بھی جاری رہے گی۔
ایک درجن مسلمان طالبات سمیت درخواست دہندگان نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ حجاب پہننا ہندوستان کے آئین کے تحت ایک بنیادی حق اور اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت: کرناٹک میں عدالتی فیصلہ آنے تک طالبات کے حجاب پر پابندی
ریاست کرناٹک کے اس اقدام کے خلاف ملک کے دوسرے حصوں میں بھی مظاہرے کیے گئے تھے اور امریکا اور اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے تنقید کی گئی تھی۔