ماں بولی سے کریں ماں جیسا پیار
خالقِ کائنات نے یہ زمین خوب کشادہ بنائی اور ہماری زندگیوں کے تانے بانے یوں بُنے کہ اس میں گھومنا پھرنا کسی کا شوق ٹھہرا تو کسی کی مجبوری۔ اب نگر نگر اور قریہ قریہ چاہے کوئی من مرضی سے سفر کرے یا کسی کو حالات کے تھپیڑے یہاں وہاں لیے پھریں ،گفتگو اور ابلاغ کی ضرورت انسان کے ساتھ چلتی ہے۔ ماسوائے ان کے جن کو قاسمِ اشیا نے گویائی کے بدلے کوئی دوسرا جوہر عطا کر رکھا ہو۔
گفتگو ہمیشہ تو الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی مگر جب ہوتی ہےتو اس کی حاجت روائی کا وسیلہ زبان بنتی ہے۔ صرف وہ نہیں جو ہم منہ میں لیے پھرتے ہیں بلکہ وہ زبان جو بیان کا ذریعہ ہے، جو الفاظ و تراکیب کا مجموعہ تو ہے ہی، ساتھ ہی کسی بھی معاشرت اور تہذیب کا جزو لاینفک بھی ہوتی ہے۔
ہم میں سے اکثر کئی زبانیں بول اور سمجھ سکتے ہیں کیونکہ آج کے دور میں تعلیم، نوکری، کاروبار وغیرہ کے لیے دوسری اور تیسری زبان سیکھنا ضرورت بن چکا ہے۔ ضرورت کا یہ پھیر ہمیں مقامی سے قومی اور قومی سے بین الاقوامی زبانوں کے مدار میں لے جاتا ہے، اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ وقت کے قدم سے قدم ملا لینا سفر کو رائیگانی سے بچا سکتا ہے۔ مگر اس دوڑ بھاگ اور ‘آگے سے آگے چل‘ کے چکر میں کبھی کبھی ہماری مادری زبان پیچھے رہ جاتی ہے۔
وہ زبان جو مادر یعنی ماں سے منسوب اور موسوم ہو اس سے تو پیار کیا جانا چاہیے، ماں جیسا ہی پیار!!
راقم کے اجداد 1947ء کے ہنگاموں میں جموں کے قرب و جوار سے ہجرت کرکے اس مملکت خداداد میں پہنچے تھے۔ وہاں کی مقامی زبان گوجری ہمارے بزرگوں یعنی دادا، نانا وغیرہ کی مادری زبان تھی۔ مگر سیالکوٹ اور نارووال کے علاقوں میں آباد ہونے والے ان مہاجروں نے پنجابی کو اپناتے ہوئے تردد نہ کیا۔ گمان کیا جاسکتا ہے کہ ان نامہرباں دنوں میں وہ لوگ جس آزمائش اور ابتلا سے گزر رہے تھے اس میں زبان کا انتخاب شاید ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہوگا۔ یوں پنجابی ہمارے والدین اور ہماری مادری زبان بن گئی۔ ابھی ہم کمسن ہی تھے کہ زبانوں کی اس کہانی میں ایک عجیب موڑ آیا جہاں سے ایک اور مقامی زبان سے ہمارے لگاؤ کا آغاز ہوا۔
1982ء میں اپنے آبائی علاقے سے ہم اپنے والد کے ہمراہ ان کی جائے ملازمت، کوٹلی آزاد کشمیر آگئے۔ یہ ہماری اوائل عمری کے دن تھے اور اسکول داخل ہونے میں ابھی کچھ عرصہ باقی تھا۔ ہم کرائے کے ایک گھر میں رہائش پذیر ہوئے۔ وہاں ایک پڑوسی خاتون خالہ سیما سے ہماری والدہ کی علیک سلیک ہوئی جو دنوں میں گہری دوستی میں بدل گئی۔
اچنبھے کی بات یہ تھی کہ خالہ سیما صرف مقامی پہاڑی زبان بول سکتی تھیں اور ہماری والدہ کو بس پنجابی ہی آتی تھی۔ دونوں کی بُود وباش بھی ایک دوسرے سے بالکل جُدا تھی۔ ایک میدانی علاقے کے دیہاتی اور زرعی پس منظر سے تھیں تو دوسری کا تعلق ایک دُور افتادہ پہاڑی علاقے کے نیم شہری ماحول سے تھا۔ شاید ان کی روحیں روزِ ازل سے ایک دوسرے سے شناسا تھیں، سو اس دنیا میں انہیں ایک دوسرے سے مہر و محبت رکھنا ہی تھا۔ اس دوستی کا یہ اثر ہوا کہ ہماری سماعت بہت چھوٹی عمر سے ہی پہاڑی زبان سے مانوس ہوگئی۔
کرائے کے گھر تو بدلتے رہے مگر ایک دوسرے سے ملنے کی عادت نہ بدلی۔ خالہ سیما اور ہماری والدہ آپس میں منہ بولی بہنیں بن گئیں۔ وہاں تو سبھی پہاڑی زبان ہی بولتے تھے مگر ہمارے دل میں گھر یہ شاید اس ایک خاندان کی اپنائیت کی وجہ سے کرگئی۔
اب ہم اسلام آباد میں مقیم ہیں اور کوٹلی آزاد کشمیر کو چھوڑے دو دہائیوں سے زائد عرصہ بیت چکا مگر راولپنڈی اور گرد و نواح میں بولی جانے والی پوٹھوہاری زبان میں ہمیں اب بھی کوٹلی کی پہاڑی زبان کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ ہماری مادری زبان تو نہیں مگر ہماری ماں کو اس زبان کے بولنے والوں سے بے لوث پیار ملا تھا، اس لیے ہمیں اس زبان سے بھی پیار ہے۔
زندگی کے سفر میں ہم آگے بڑھے تو آشکار ہوا کہ آسمانوں پر ہمارا جوڑا جس ہستی سے بنا تھا وہ اہلِ زبان یعنی ‘اردو اسپیکنگ’ تھی۔ ہماری ‘نصف بہتر’ کے خاندان کا تعلق انڈیا کی ریاست اترپردیش کے ضلع بجنور سے تھا۔
لاہور میں رہنے اور پلنے بڑھنے کے باوجود وہ پنجابی نہیں بول سکتیں۔ اگرچہ مشنری اسکولوں میں پڑھا لیکن اردو کی شین قاف درست رہی۔ محاوروں اور روزمرہ کا استعمال ان کی عام گفتگو کا حصہ ہے۔ اس لیے کہنا پڑے گا کہ اگلی نسل یعنی ہمارے بچوں کی مادری زبان اردو ہے۔
اردو کا ایک الگ سحر ہے۔ خصوصاً اگر اپنی توتلی زبان سے جانِ پدر بولے۔ ہماری صاحبزادی ابھی دو، ڈھائی برس کی تھیں، گھر میں کھیلتے ذرا نظر سے اوجھل ہوئیں تو ہم نے پوچھا، بیٹی کیا کر رہی ہو؟ جواب ملا : ‘بابا! زمین پر 'لوٹ' رہی ہوں’۔ یہ سن کر تو پنجابی بابا لوٹ پوٹ ہوگئے۔ یونہی ہمارے برخوردار ایک بار اپنی والدہ سے ہماری شکایت کچھ یوں کرتے ہوئے پائے گئے کہ رات باہر پٹاخے 'پُھوٹ' تھے مگر بابا نے دیکھنے جانے ہی نہ دیا۔
بیگمات کی گفتگو سے محظوظ ہونا شوہروں کے لیے دشوار ہوتا ہے لیکن اگر اس میں ’اپلائیڈ اردو’ کا استعمال ہو تو سن کر کچھ نئے پن کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ جیسے سیڑھیوں کو زِینہ، باریک کو حَریری، شرارتی کو نَٹ کَھٹ کہنا ہمارے ہاں عام ہے۔ یونہی ہم نے ‘ہریل گدھا’، ‘نٹ کی طرح ناچنا’ اور ‘سیندوری آم’ وغیرہ جیسے گوہر بھی روانی سے روزمرہ بول چال میں جڑتے دیکھے ہیں۔
آخر میں خدا لگتی کہنی پڑے گی کہ آج کل کے نونہالوں کا دل اردو اور دیگر مقامی زبانوں سے اچاٹ ہے۔ ان کی گھڑی کی سوئیاں انگریزی سے ملی ہوئی ہیں۔ کسے خبر کہ اگلی نسل لفظ ‘مادری زبان‘ کو سمجھ بھی پائے گی یا انہیں بتانا پڑے گا کہ یہ ‘مدر ٹنگ’ کو کہتے ہیں۔
آپ کی مادری زبان کوئی بھی ہو، بلوچی، براہوی، دری، فارسی، پشتو، ہندکو، اردو، سرائیکی، سندھی، سِندھڑی سرائیکی، کشمیری، پنجابی، جانگلی، پہاڑی، پوٹھوہاری، شِینا، بَلتی، میمنی، ماڑواڑی، گوجری، بس اس سے تعلق مت توڑیے۔ اس تعلق کے جامِ جہاں نُما میں آپ کو اپنے والدین اور بڑے بزرگ دکھائی دیں گے۔ اپنی اگلی نسل کو بھی اپنی مادری زبان سے آشنا کروائیے۔ یہ مفت کی ایسی خوشی ہے جو ہر وقت میسر رہ سکتی ہے۔
تبصرے (7) بند ہیں