سینیٹ کمیٹی: بینکنگ خدمات فراہم کرنے سے انکار پر سزا کا بل منظور
بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ایگزیکٹوز کے لیے بینکنگ خدمات کی فراہمی میں کسی عہدے پر فائز سیاسی افراد (پی ای پیز) سمیت کسی کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے پر سزا سے متعلق بل کی سینیٹ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے ) کی جانب سے پاکستان کو واپس بھیجے گئے 25 کروڑ ڈالر کی صورتحال اور تفصیلات سے متعلق تین روز کے اندر تحریری بیان جمع کرانے کی ہدایت بھی کی گئی۔
مختلف اراکین کی جانب سے کئی مواقع پر اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ بینکوں کے امتیازی رویے جیسے کہ بینک اکاؤنٹس کھولنے یا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے سے انکار وغیرہ جیسے معاملات اٹھائے جانے کے بعد بینکنگ کمپنیز ترمیمی بل 2021 چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود نے ہی سینیٹ میں پیش کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:سینیٹ کمیٹی میں بچوں کے دودھ، سونے پر 17 فیصد ٹیکس کی تجویز مسترد
مثال کے طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ ان کا کریڈٹ کارڈ ایک بینک نے بغیر کوئی وجہ بتائے منسوخ کر دیا اور دعویٰ کیا کہ بینک نے کارڈ منسوخ کرنے کے اقدام کی وجہ پوچھنے کے لیے لکھے گئے خطوط کا جواب بھی نہیں دیا۔
اجلاس کے دوران اراکین نے شکایت کی کہ اس طرح کا طرز عمل آئین کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق کی روح کے خلاف ہیں۔
کمیٹی نے ابتدائی طور پر ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی تجویز پیش کی تھی جسے سینیٹرز کی سفارشات پر متفقہ طور پر بڑھا کر 10 لاکھ روپے کر دیا گیا۔
بینکنگ کمپنیز آرڈیننس (بی سی او ) 1962 کے سیکشن 83 میں مجوزہ ترمیم میں ایک نیا ذیلی سیکشن ای ون داخل کرنے کی تجویز منظور کی گئی ہے۔
جس میں لکھا گیا ہے کہ اگر بینکنگ کمپنی یا شیڈول بینک کا کوئی افسر مذہب، مسلک، جنس، نسل، مدرسہ یا اسلامی تعلیمی ادارے سے تعلق کی بنیاد پر یا شہریوں کے کسی طبقے یا گروہ جیسے سیاستدان یا صرف سیاسی طور پر عہدے پر فائز شخص ہونے کی بنیاد پر، سرکاری ملازم یا مدرسے کے اساتذہ ہونے کی بنیاد پر بغیر کسی قانون کے تحت کسی مناسب پابندی کے بغیر، اکاؤنٹ کھولنے، یا کریڈٹ کا لیٹر جاری کرنے، بینک گارنٹی یا کوئی دوسری مالی سہولت جاری کرنے سے انکار کرتا ہے، یا ریڈ الرٹ یا کاروباری تجارت کے لیے ہائی رسک الرٹ جاری کرتا ہے، تو اس بینکنگ افسر کو ایک سال تک کی مدت کے لیے قید کی، یا جرمانے کی سزا یا ایک ساتھ دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مزید پڑھیں:حکومت نے سینیٹ میں 'منی بجٹ' پیش کردیا، اپوزیشن کا شدید احتجاج
تاہم وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے حکام کی جانب سے بل کی مخالفت کے بعد اجلاس میں گرما گرم بحث ہوئی۔ حکام کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ نے انہیں بل کی مخالفت کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا ہے کہ تمام شہریوں کو برابری کے حقوق فراہم کرنے والے آئین کو موجودگی میں ایسے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 74 کے تحت اسٹیٹ بینک کے آئین یا افعال کو متاثر کرنے والے بل یا ترمیم کو حکومت کی رضامندی سے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
ارکان نے کمیٹی کے اجلاسوں میں اسٹیٹ بینک کے گورنر اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کی بار بار غیر حاضری پر ناراضی کا اظہار کیا اور سیکریٹری قانون کے بجائے ایک ڈرافٹ مین کو اجلاس میں شرکت کے لیے بھیجنے پر وزارت قانون پر تنقید کی۔
رقم واپس بھیجی گئی۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی نے بااثر رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کے ساتھ سمجھوتے کے بعد برطانیہ کی این سی اے کے ذریعے واپس بھیجے گئے 25 کروڑ ڈالر کی تفصیلات پر بھی سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ کیا یہ رقم مرکزی بینک میں جمع کرائی گئی ہے یا سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں الگ رکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:نئے صوبوں کے قیام کے معاملے پر عوامی سماعت کا فیصلہ
تاہم اسٹیٹ بینک کے حکام کے پاس ان سوالات سے متعلق کوئی جواب نہیں تھا۔
کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کو ہدایت کی کہ وہ تین روز کے اندر تحریری طور پر تفصیلات فراہم کرے ورنہ اگلی میٹنگ میں اس کو الگ ایجنڈا آئٹم کے طور پر رکھا جائے گا جس میں کچھ سخت احکامات دیے جا سکتے ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ دسمبر 2019 میں، این سی اے نے 19 کروڑ پاؤنڈ (25 کروڑ ڈالر) میں ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ تصفیہ کیا تھا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ برطانیہ نے تصفیے کے بعد موصول ہونے والے فنڈز کی فوری واپسی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
سینیٹ پینل نے اجلاس کے دوران ایف بی آر سے جائیدادوں کی قیمت کا تعین کرنے کو بھی کہا، جبکہ ریئل اسٹیٹ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن (آر ای سی اے) کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ویلیو ایشن ریٹ میں 25 فیصد اضافہ کیا جانا چاہیے۔