• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

انسدادِ دہشتگردی عدالت: محسن بیگ کے جسمانی ریمانڈ میں 3 روز کی توسیع

شائع February 18, 2022
ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہماری استدعا ہے کہ آپ 21 ون ڈی کو دیکھ لیں — فائل فوٹو/ ڈان نیوز
ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہماری استدعا ہے کہ آپ 21 ون ڈی کو دیکھ لیں — فائل فوٹو/ ڈان نیوز

اسلام آباد کی انسداد دہشت کردی عدالت نے محسن بیگ کے ریمانڈ میں توسیع کرتے ہوئے انہیں مزید 3 روز کے لیے پولیس کے حوالے کردیا۔

جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر سینئر صحافی محسن بیگ کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمد علی وڑائچ کے روبرو پیش کیا گیا۔

دوران سماعت محسن بیگ کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہماری استدعا ہے کہ آپ 21 (ون) (ڈی) کو دیکھ لیں۔

ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کے خلاف 9 بجے مقدمہ درج کیا گیا اور 9 بج کر 15 منٹ پر ان کے گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ 16 فروری کو تحقیقات ہوئیں، اسی دن مقدمہ درج ہوا اور ایف آئی اے ٹیم اسلام آباد پہنچی۔

ملزم کے وکیل نے سائبر کرائم سیل میں درج مقدمے کے مندرجات پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس میں پیکا ایکٹ کی دفع نہیں لگنی چاہیے، مقدمے میں ریحام خان کی کتاب اور ٹاک شو میں نازیبا الفاظ کے استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے دہشت گردی، دیگر سنگین جرائم کے الزام میں محسن بیگ کو گرفتار کرلیا

اس موقع پر پولیس کی جانب سے عدالت میں واقعے کی تصاویر بھی پیش کی گئیں جس میں محسن بیگ کے ہاتھ میں پستول موجود ہے۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ پستول کی برآمدگی پر جسمانی ریمانڈ میں مزید توسیع کی جائے، عدالت نے پولیس کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

بعدازاں سنائے گئے فیصلے میں ملزم محسن بیگ کی جسمانی ریمانڈ میں مزید 3 روز کی توسیع کردی گئی۔

میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے کی استدعا

محسن بیگ کی میڈیکل رپورٹ حاصل کرنے کے لیے ملزم کے وکیل لطیف کھوسہ کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں ایک اور درخواست دائر کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ملزم محسن بیگ ذیابیطس اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں، محسن بیگ کو ایف آئی اے کی جانب سے بدترین تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، ایف آئی اے اور پولیس نے محسن بیگ کا طبی معائنہ پمز اور پولی کلینک ہسپتال سے کروایا ہے۔

مزید پڑھیں: محسن بیگ کیخلاف دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست سماعت کیلئے مقرر

درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت، محسن بیگ کی میڈیکل رپورٹس فراہم کرنے کا حکم دے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت

دوسری جانب محسن بیگ پر مقدمات اور گرفتاری کے خلاف ان کی اہلیہ کی درخواستوں پر اسلام آماد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ سے مقدمہ خارج کرنے سے متعلق استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر ختم کرنے کی درخواست ملزم خود ہی دے سکتا ہے، ملزم کے علاوہ کوئی تیسرا فریق ایسی درخواست نہیں دے سکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ صرف ہمارا وقت ضائع کریں گے، ہم ایسی کوئی نظیر نہیں بنا سکتے کہ تیسرے فریق کی درخواست پر مقدمہ خارج کرنے کا فیصلہ کریں۔

عدالت نے مزید کہا کہ ہمیں نہیں پتا محسن بیگ خود ایف آئی آر کا خاتمہ چاہتے ہیں یا نہیں، ہم حکم دیں گے کہ وکلا کو محسن بیگ سے ملنے دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ غیرقانونی قرار دینے والے جج کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

چیف جسٹس کے ریمارکس پر ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ محسن بیگ سے تو لوگوں کو ملنے نہیں دیا جارہا کیسے درخواست دیں، محسن بیگ کو بُری طرح سے مارا پیٹا گیا وہ زخمی ہیں۔

لطیف کھوسہ نے مزید انکشاف کیا کہ ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکایا جارہا ہے، کہا جارہا ہے کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے خلاف کارروائی بھی ہوگی، یہ باتیں وزیر اعظم سے منسوب کر کے ٹی وی پر چلائی جارہی ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ فکر نہ کریں، جج کو دھمکایا نہیں جا سکتا، انہیں کرنے دیں جو کرتے ہیں، عدالتیں ان معاملات میں سب سے اعلیٰ ہوتی ہیں۔

لطیف کھوسہ نے عدالت سے محسن بیگ کی اہلیہ کی درخواست خارج نہ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو زیر التوا رکھیں، محسن بیگ کی جانب سے الگ درخواست دائر کی جائے گی۔

عدالت نے محسن بیگ پر تشدد کے حوالے سے ریمارکس دیے کہ وکیل درخواست گزار نے بڑے سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں، آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ محسن بیگ کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کریں۔

عدالت نے مقدمات کے خلاف محسن بیگ کو خود درخواست دائر کرنے کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا کہ وکلا کو محسن بیگ سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا کا 'قابل اعتراض مواد' نشر نہ کرنے کا نوٹی فکیشن لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

عدالت نے محسن بیگ پر تشدد کی شکایت پر آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے محسن بیگ پر مقدمات کے خلاف درخواستوں پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

محسن بیگ کے ملازمین گرفتار

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے گرفتاری کے وقت حملے کے مقدمے میں دارالحکومت پولیس نے محسن بیگ کے ملازمین کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (آپریشن) محمد فیصل کا کہنا تھا کہ تفتیشی حکام کی جانب سے ایف آئی اے ٹیم پر حملے کے مقدمے میں محسن بیگ کے 3 ملازمین کو گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا اور انہیں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ محسن بیگ کے صاحبزادے حمزہ پولیس کی حراست میں نہیں ہیں، مذکورہ مقدمے میں وہ بھی پولیس کو مطلوب ہیں اور ان کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔

محسن بیگ کے زخموں کی وجوہات کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پولیس کو ہسپتال میں کیے گئے طبی معائنے کی رپورٹ موصول ہوگئی ہے اور رپورٹ میں کچھ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پیمرا کے نوٹس سے قبل ہی 'نیوز ون' چینل آف ایئر

انہوں نے کہا کہ ان کے چہرے پر ایف آئی اے ٹیم کے ساتھ گھر کے باہر ہونے والی ہاتھا پائی میں چوٹ آئی جسے پولیس کی حراست میں تشدد نہیں سمجھا جاسکتا جبکہ میری موجودگی میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔

پسِ منظر

یاد رہے یہ معاملہ گزشتہ دنوں نجی چینل 'نیوز ون' پر نشر کیے جانے والے پروگرام میں وزیر اعظم کی جانب سے 10 وزراتوں کو بہترین کارکردگی کا ایوارڈ دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تھا، جس پر محسن بیگ سمیت دیگر مہمانوں نے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔

پیمرا کے نوٹس کے مطابق اینکر غریدہ فاروقی نے اپنے پروگرام میں شریک مہمان سے سوال کیا کہ مراد سعید کی وزارت کے پہلے نمبر پر آنے کی حقیقی وجہ کیا ہے، جس کے جواب میں محسن بیگ نے کہا کہ وہ نہیں جانتے لیکن وجہ 'ریحام خان کی کتاب میں لکھی گئی ہے'۔

بعد ازاں 16 فروری کو ایف آئی اے محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرلیا تھا۔

محسن بیگ کے خلاف مارگلہ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعات 148، 149، 186، 324، 342، 353 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024