سیاسی وجوہات کے سبب گزشتہ سال طیارے کو کابل ایئرپورٹ پر اترنے نہیں دیا گیا، اسد قیصر
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے طیارے کو سیاسی وجوہات کی وجہ سے گزشتہ سال کابل میں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی زیر سربراہی پارلیمانی وفد 9 اپریل 2021 کو کچھ ہی منٹوں میں وطن واپس لوٹ آیا تھا کیونکہ اس وقت کے افغان حکام نے ان کے طیارے کو کابل ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت نہیں دی تھی اور پاکستانی حکام نے سیکیورٹی خدشات کو اس کی وجہ قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستانی وفد کی پرواز کو سیکیورٹی خدشات پر کابل میں لینڈنگ کی اجازت نہ مل سکی
افغان حکام نے اس وقت توجیح پیش کی تھی کہ حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو کنٹرول کرنے والی غیر ملکی افواج ایئرپورٹ کے ایک مقام پر کھدائی کر رہی تھیں اور اس وجہ سے انہوں نے ہوائی اڈے کو عارضی طور پر بند کر دیا تھا۔
لیکن اب اسپیکر قومی اسمبلی نے واقعے کے تقریباً ایک سال بعد طیارے کو لینڈنگ کی اجازت نہ دینے کی وجوہات کو سیاسی قرار دیا ہے کیونکہ ان دنوں افغان انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ تھے۔
اسد قیصر نے اسلام آباد میں پاکستانی اور افغان تاجروں، سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے ایک اجتماع سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا دورہ افغانستان سیاسی وجوہات سے متاثر ہوا اور میں نے اس وقت اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر اینڈ انڈسٹری کے نمائندوں سے ملاقات میں مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ سیاست کو سیاسی اختلافات سے الگ رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے مابین دوطرفہ تجارت کے ساتھ ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ متاثر ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بدلتی سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی بھی حرکت میں آگئی
اسپیکر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بدقسمتی سے کچھ پالیسیاں معاملات میں رکاوٹ بن جاتی ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت میں سیاست کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
اسد قیصر نے پاکستانی اور افغان تاجروں سے دوطرفہ تجارت کو فروغ اور تجارت پر اثرانداز ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے تجاویز پیش کرنے کو کہا۔
یاد رہے کہ پاکستانی پارلیمانی وفد اس وقت کے افغان وولسي جرگہ کے اسپیکر میر رحمٰن رحمانی کی دعوت پر افغانستان جا رہا تھا جنہوں نے بعد میں اسد قیصر سے رابطہ کر کے واقعے پر معذرت بھی کی تھی۔
اس وقت ایک تاثر یہ تھا کہ اس اقدام کے پیچھے معزول نائب صدر امر اللہ صالح اور سابق قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب تھے، دونوں سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں انتہائی طاقتور اور پاکستان مخالف رویے کے لیے جانے جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: افغان شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا، وزیر اعظم
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان افغانستان کے ساتھ تعلقات کی نگرانی کر رہے ہیں اور وہ افغان وزیر خارجہ کے طور پر بین الاقوامی سطح پر افغانستان کا لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر اینڈ انڈسٹری کے شریک چیئرمین اور معروف افغان تاجر و رہنما خان جان الکوزئی نے بھی دن بھر ملاقاتوں کے بعد اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ سیاسی مسائل نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو متاثر کیا ہے۔
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین زبیر موتی والا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ بعض مسائل کی وجہ سے پاک افغان تجارت کا حجم تقریباً تین ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.2 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
الکوزی نے کہا کہ افغانستان میں پچھلی حکومتوں کے دوران سیاسی دباؤ تھا لیکن اب امارت اسلامیہ کی حکومت کے قیام کے بعد ہمارے بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں۔