ویکسینیشن سے لانگ کووڈ کا امکان کم ہوتا ہے، تحقیق
ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے افراد کو اگر بریک تھرو انفیکشن (ویکسنیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں لانگ کووڈ کا خطرہ کم ہوتا ہے بلکہ پہلے سے اس سے متاثر افراد کی حالت میں بھی بہتری آسکتی ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والے ایک تحقیق میں سامنے آئی۔
یو کے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) کی اس تحقیق 15 تحقیقی رپورٹس کا جامع تجزیہ کیا گیا تھا جن میں سے نصف میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ کووڈ ویکسینیشن کس حد تک لانگ کووڈ سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
دیگر تحقیقی رپورٹس میں لانگ کووڈ کے مریضوں میں ویکسینیشن کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے سنبھلنے کے بعد کئی ہفتوں یا مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
بیماری کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسینز استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں بریک تھرو انفیکشن سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی طویل المعیاد علامات کا امکان اس صورت میں کم ہوتا ہے جب انہوں نے ویکسین کی ایک یا 2 خوراکوں کا استعمال کیا ہو۔
2 تحقیقی رپورٹس میں لوگوں میں لانگ کووڈ کی علامات کی جانچ پڑتال کی گئی تھی اور دریافت ہوا کہ ویکسینشین مکمل کرانے والوں میں تھکاوٹ، سردرد، ٹانگوں اور بازؤں میں کمزوری، مسلز میں مسلسل تکلیف، بالوں کا گرنا، سر چکرانا، سانس لینے میں مشکلات، سونگھنے کی حس سے محرومی یا پھپھڑوں کو نقصان پہنچنے جیسی علامات کا امکان کم ہوتا ہے۔
تحقیقی تجزیے میں بتایا گیا کہ ایسے بھی شواہد بھی موجود ہیں کہ ویکسینیشن نہ کرانے والے لانگ کووڈ کے مریض جب بعد میں ویکسینز کا استعمال کرتے ہیں تو لانگ کووڈ کی علامات کی شدت یا تعداد میں کمی آتی ہے۔
مگر کچھ افراد نے ویکسینیشن کے بعد علامات کی شدت بدترین ہونے کو بھی رپورٹ کیا۔
برطانیہ کی سرے یونیورسٹی میں امیونولوجی پروفیسر ڈیبوری ڈیون والٹرز نے بتایا کہ اب تک اتنی تفصیلات موجود نہیں جس سے وضاحت ہوسکے کہ آخر ویکسینینش سے لوگوں کی علامات میں بہتری کیوں آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لانگ کوڈ کی اصطلاح میں بیماری کے بعد کی متعدد علامات کو شامل کیا گیا ہے تو ہم ابھی تک اس عمل کو پوری طرح سمجھ نہیں سکے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک خیال یہ ہے کہ ممکنہ طور پر اس سے جسم میں وائرس کے باقی ماندہ ذخائر کو صاف رنے میں مدد ملتی ہے، جبکہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ ویکسینشن سے لوگوں سے مدافعتی ردعمل ایک بار پھر متوازن ہوجاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی مدافعتی ردعمل زیادہ شدید ہونے پر آٹو امیون جیسا عمل متحرک ہوتا ہے جو مختلف علامات کا باعث بنتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ افراد کی جانب سے علامات کی شدت کو بدتر ہونے کو رپورٹ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس تجزیے سے ہر ایک کے لیے کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کی اہمیت کا اعادہ ہوتا ہے۔
اس سے قبل ستمبر 2021 میں کنگز کالج لندن کی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ویکسینیشن کرانے والوں میں لانگ کووڈ کا امکان 49 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
کنگز کالج لندن کی اس تحقیق کے لیے ماہرین نے یوکے زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈ ایپ کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جو 8 دسمبر 2020 سے 4 جولائی 2021 تک جمع کیا گیا۔
یہ لاکھوں افراد کا ڈیٹا تھا جس میں سے 12 لاکھ 40 ہزار 9 افراد نے ویکسین کی ایک خوراک استعمال کی تھی جبکہ 9 لاکھ 71 ہزار 504 نے 2 خوراکیں استعمال کی تھیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد بھی کوئی بدقسمتی سے کووڈ کا شکارہوجاتا ہے تو بھی اس میں طویل المعیاد علامات کا خطرہ ویکسینیشن نہ کرانے والے مریضوں کے مقابلے میں 49 فیصد کم ہوتا ہے۔
اسی طرح ویکسینیشن کے بعد بیماری پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 73 فیصد تک کم ہوتا ہے اور بیماری کی شدید علامات کا خطرہ 31 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
ان افراد میں عام علامات ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد سے ملتی جلتی ہے جن میں سونگھنے کی حس سے محرومی، کھانسی، بخار، سردرد اور تھکاوٹ قابل ذکر ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ ویکسینیشن سے لانگ کووڈ کا خطرہ 2 وجوہات کے باعث کم ہوتا ہے، ایک وجہ تو یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی علامات کا خطرہ 8 سے 10 گنا کم ہوجاتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ بیماری کا سامنا ہونے پر علامات کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے اور شدت بھی معمولی ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں شائع ہوئے۔