• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ایف آئی اے نے دہشت گردی، دیگر سنگین جرائم کے الزام میں محسن بیگ کو گرفتار کرلیا

شائع February 16, 2022
عدالت نے بیلف مقرر کرتے ہوئے محسن بیگ کو عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا — فائل فوٹو
عدالت نے بیلف مقرر کرتے ہوئے محسن بیگ کو عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا — فائل فوٹو

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے میڈیا پرسن اور تجزیہ کار محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا جبکہ سیشن کورٹ نے چھاپہ غیرقانونی قرار دے دیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید کی شکایت پر محسن بیگ کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں تھانہ مارگلہ منتقل کردیا گیا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے محسن بیگ کے گھر میں چھاپہ مارا، اس موقع پر ایف آئی اے کے پاس عدالت کی جانب سے حاصل کیے گئے سرچ اینڈ سیز وارنٹ بھی موجود تھے، دوران کارروائی ملزم محسن بیگ، ان کے صاحبزادے اور ملازمین نے ایف آئی اے ٹیم پر فائرنگ کی اور دو افسران کو یرغمال بنا کر زدوکوب کیا گیا۔

تاہم ملزمان کے پاس گولیاں ختم ہونے پر محسن بیگ کو گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: مراد سعید کے خلاف نازیبا کلمات نشر کرنے پر 'نیوز ون' کو شوکاز نوٹس

یاد رہے گزشتہ دنوں نجی چینل 'نیوز ون' پر نشر کیے جانے والے پروگرام میں وزیر اعظم کی جانب سے 10 وزراتوں کو بہترین کارکردگی کا ایوارڈ دینے کا معاملہ زیر بحث آیا تھا، جس پر محسن بیگ سمیت دیگر مہمانوں نے نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔

پیمرا کے نوٹس کے مطابق اینکر غریدہ فاروقی نے اپنے پروگرام میں شریک مہمان سے سوال کیا کہ مراد سعید کی وزارت کے پہلے نمبر پر آنے کی حقیقی وجہ کیا ہے، جس کے جواب میں محسن بیگ نے کہا کہ وہ نہیں جانتے لیکن وجہ 'ریحام خان کی کتاب میں لکھی گئی ہے'۔

محسن بیگ کی گرفتاری کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے ٹوئٹ کیا اور کہا کہ یہ قانون ہے۔

'اہل خانہ سے نامناسب رویہ اختیار کیا گیا'

محسن بیگ کے وکیل نے اسلام آباد کی ضلعی سیشن عدالت میں ان کی گرفتاری کے خلاف درخواست دائر کی جس پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی، عدالت نے بیلف مقرر کر تے ہوئے محسن بیگ کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'نیوز ون' کی بندش کیلئے کیبل آپریٹرز کو احکامات نہیں دیے، پیمرا

ان کا کہنا تھا کہ ایس پی اور ڈی ایس پی سے وارنٹ گرفتاری اور سرچ وارنٹ مانگے گئے لیکن انہوں نے وارنٹ نہیں دیے، ایس پی نے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد کو گھر میں دھاوا بولنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سرچ وارنٹ کے سوال پر ایس پی کا کہنا تھا کہ وہ وارنٹ کے ساتھ واپس آئیں گے، وہ واپس گئے اور لوگوں کو ان کے گھر میں دھاوا بولنے کے لیے کہا، بعدازاں وہ گھر میں داخل ہوگئے، وہ کون تھے اس حوالے سے کوئی علم نہیں ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے محسن بیگ کے بچوں کو مارا، موبائل فون توڑ دیے اور محسن بیگ کو ساتھ لے گیے۔

مقدمے میں اقدام قتل، حبس بے جا کی دفعات کے علاوہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی شامل کی گئی ہے، عدالتی بیلف نے محسن بیگ کے خلاف مقدمے اور گرفتاری کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔

مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ محسن بیگ نے نجی پروگرام میں مراد سعید کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی، نجی ٹی وی پروگرام میں بے بنیاد کہانی اور توہین آمیز ریمارکس دیے گئے، پروگرام کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پیمرا کے نوٹس سے قبل ہی 'نیوز ون' چینل آف ایئر

متن میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ اقدام سے عوام میں مراد سعید کی ساکھ کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بعد ازاں مرگلہ پولیس اسٹیشن کی جانب سے فراہم کردہ بیلف کی رپورٹ پر کہا گیا کہ محسن بیگ کے خلاف درج مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 148 (فساد اور ہتھیار کا الزام)، 149 (لوگوں کو غیرقانونی طور پر جمع کرنا)، 186 (سرکاری ملازمین کو انجام دہی دے روکنا)، 324 (اقدام قتل)، 324 (ملزم کو جانچنے کا اختیار)، 353 (سرکاری ملازمین کو ان کی ذمہ داری کی انجام دہی سے روکنا) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 شامل کی گئی ہے۔

گھر پر چھاپہ غیرقانونی تھا، سیشن کورٹ

محسن بیگ کے وکیل راحیل نیازی نے گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں اپنے مؤکل کی رہائی کے لیے درخواست دائر کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ آج صبح سادہ لباس میں چند نامعلوم افراد محسن بیگ کے گھر میں داخل ہوئے، پولیس کی ہیلپ لائن پر فون کے بعد پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ سادہ لباس افراد سے کہا گیا کہ وہ گرفتاری یا چھاپے کے وارنٹ دکھائیں جبکہ وہاں پر موجود سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) نے محسن بیگ کو ان کے حوالے کردیا۔

درخواست کے جواب میں سیشن جج نے محسن بیگ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں مارگلہ پولیس نے رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ محسن بیگ کے خلاف ایف آئی اے کے ساتھ تصادم کے بعد تعزیرات پاکستان کی دفعات 148، 149، 186، 324، 342، 353 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی ہے۔

پولیس نے عدالت کے سامنے ایک زخمی شخص کو بھی پیش کیا اور ان کی شناخت ایف آئی اے کے ملازم وسیم سکندر کے نام سے کی۔

جب عدالت نے مقدمے میں درج ایف آئی اے کی شکایت کے بارے میں پوچھا تو پولیس نے جواب دیا کہ درخواست گزار وفاقی وزیر مراد سعید ہیں۔

محسن بیگ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقدمہ صبح 9 بجے لاہور میں درج کیا گیا اور ایف آئی اے کی ٹیم اسلام آباد میں محسن بیگ کے گھر میں صبح 8 بجے پہنچی۔

انہوں نے کہا کہ ‘وہ سرچ وارنٹ کے بغیر گھر میں داخل ہوئے’ تو اس موقع پر عدالت نے ایف آئی اے اور مارگلہ پولیس کے پاس درج کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا۔

بعد ازاں عدالت نے درخواست پر فیصلہ سنایا اور کہا کہ ایف آئی اے اور مارگلہ پولیس کے پاس درج مقدمے کی روشنی میں محسن بیگ کے گھر میں چھاپہ غیرقانونی تھا اور چھاپہ مارنے والے افراد کے پاس اختیار نہیں تھا کیونکہ مارگلہ پولیس کے ایس ایچ او عدالت میں ایف آئی اے لاہور کا کوئی اہلکار متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ پیش کرنے میں ناکام ہوئے۔

سیشن کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ایف آئی اے کے کسی رکن نے تاحال ایس ایچ او کے مؤقف کی تائید نہیں کی اور محسن بیگ کی گرفتاری ایف آئی اے کی جانب سے درج کیس میں نہیں ہوئی۔

مزید بتایا گیا کہ مارگلہ پولیس کے ایس ایچ او نے چھاپہ مارنے والی پارٹی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے جھوٹی قابلیت دکھانے کے لیے اپنی ایف آئی آر درج کرلی۔

عدالت نے بتایا کہ ایس ایچ او کا مس کنڈکٹ سامنے آنے والے ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے محسن بیگ کو تین روزہ ریمانڈ میں بھیجنے کا حوالہ دیتے ہوئے سیشن کورٹ نے حکم نامے میں کہا کہ وہ کیس کی قانونی اور میرٹ کے تعین کے لیے بہتر پوزیشن میں تھے۔

عدالت نے ایس ایچ او کو ہدایت کی کہ وہ محسن بیگ کی درخواست پر قانون کے مطابق کام کرے، جس طرح درخواست دائر کی گئی ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں سماعت

پولیس نے محسن بیگ کو انسداددہشت گردی عدالت کے جج محمد علی وڑائچ کے سامنے پیش کیا۔

محسن بیگ نے عدالت کو بتایا کہ صبح سویا ہوا تھا کہ یہ ڈاکووں کی طرح گھر میں داخل ہوئے، بغیر وردی گھر میں آئے اور گھر میں میری فیملی موجود تھی۔

انہوں نے کہا کہ تھانے میں ایف آئی اے والوں نے تشدد کیا جبکہ میں پولیس کی حراست میں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے اہلکاروں نے میری ناک، پسلیاں توڑی ہیں لہٰذا میرا میڈیکل کرا لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اتنا تشدد کیا کہ میرا چہرہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔

محسن بیگ نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی اے نے عمران خان کے کہنے پر مجھ پر تشدد کیا ہے حالانکہ میں پولیس کی حراست میں تھا، ایف آئی اے کی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مراد سعید کے حوالے سے میں نے کوئی بات نہیں کی،کتاب چھپی ہوئی موجود ہے، اس کا حوالہ دیا اور اس کتاب کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی۔

محسن بیگ کا کہنا تھا کہ میرے تمام اسلحے لائسنس یافتہ ہیں، غیر قانونی اسلحہ نہیں ہے۔

سماعت کے دوران پولیس نے عدالت سے محسن بیگ کے پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

محسن بیگ کے وکیل نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ محسن بیگ کو جوڈیشل کیا جائے کیونکہ پولیس کی حراست میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محسن بیگ کو تین روز کے لیے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

عدالت نے پولیس کو محسن بیگ کا میڈیکل کرانے کا بھی حکم دے دیا۔

اپوزیشن کا اظہار مذمت

قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے محسن بیگ کی گرفتاری پر مذمت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’حکومت کتنی خوفزدہ ہے، محسن بیگ پہلے وزیر اعظم کے دوست تھے۔'

دریں اثنا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ گرفتاری سے وزیر اعظم کی ’کمزوری‘ ظاہر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان بہت کمزور ہیں جس کی وجہ سے وہ خود پر ہونے والے تنقید سے خوفزدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’محسن بیگ کو ان کے خاندان کے سامنے گرفتار کیا گیا جیسے وہ کوئی قیدی ہیں۔'

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024