افغان شہریوں کی فلاح و بہبود کیلئے طالبان حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا، وزیر اعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر اقدام اٹھائیں گے جبکہ افغان شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے جلد یا بدیر طالبان حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
فرانسیسی جریدے ’لی فیگارو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہم خطے میں افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر اقدام اٹھائیں گے، اگر اکیلے یہ قدم اٹھا لیا تو ہم پر بے پناہ بین الاقوامی دباؤ آئے گا جبکہ ہم اس وقت معاشی لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری بنیادی توجہ اس وقت اپنی معیشت پر ہے، معیشت مضبوط ہوگی تو ہمارے دنیا سے تعلقات اچھے ہوں گے اور طالبان کو تسلیم کرنے والے واحد ملک کی حیثیت سے بین الاقوامی تنہائی وہ آخری چیز ہوگی جو ہم چاہیں گے۔
انہوں نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ 4 کروڑ افغان شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے جلد یا بدیر طالبان حکومت کو تسلیم کرنا پڑے گا کیوں کہ اس وقت کوئی متبادل نہیں، 40 سال میں پہلا موقع ہے کہ سوائے چند چھوٹی موٹی دہشت گرد تنظیموں کے افغانستان میں کوئی تنازع نہیں چل رہا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان میں جتنا استحکام ہوگا بین الاقوامی دہشت گردوں کے پنپنے کا امکان اتنا ہی کم ہوگا، اس کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا ہے جو پاکستان اکیلے نہیں کر سکتا اور ہم اس کے لیے خطے کے دیگر ممالک سے مشاورت کر رہے ہیں۔
تسلیم کرنے کی شرائط سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس بات پر بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت ہونی چاہیے اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے، ان دونوں کا طالبان حکومت نے وعدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب سوال یہ ہے کہ طالبان ایسا کیا کریں جس سے دنیا مطمئن ہو کہ طالبان نے شرائط پوری کردی ہیں، اس وقت یہ صورتحال ہے کہ وہ دونوں شرائط پر راضی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا، افغانستان کو امدادی پیکج دے ورنہ وہ داعش کی پناہ گاہ بن جائے گا، عمران خان
'افغان عوام کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا'
عمران خان نے کہا کہ اگر کوئی افغانوں کے کردار سے واقف ہے تو اسے ادراک ہونا چاہیے کہ وہ بہت فاخر لوگ ہیں، آپ انہیں مجبور نہیں کرسکتے، وہ بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہ سال 2001 میں پاکستان ان تین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے افغان حکومت کو تسلیم کیا تھا، اس کے باوجود جب پاکستان نے طالبان سے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے کا کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا، اس لیے کسی حکومت پر بین الاقوامی دباؤ ایک حد تک ہی اثر انداز ہوسکتا ہے خاص طور پر ایسی حکومت جو طالبان کی طرح بہت آزادی پسند ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف متنبہ کرنے کے لیے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دباؤ ڈال کر جامع حکومت اور حقوق کی پاسداری میں تیزی لانے پر مجبور کر سکتا ہے تو ایسا نہیں ہونے والا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم خواتین کے حقوق کے بارے میں کیا توقع کرتے ہیں، اس بارے میں افغان کیا سوچتے ہیں اور مغرب میں خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں ان میں ایک بڑی خلیج ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا اور اگر افغانستان میں خواتین کے لیے مغربی طرز کے حقوق کی توقع کی جارہی ہے تو ایسا نہیں ہوگا، تاہم انہوں نے اتفاق کیا ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت ہونی چاہیے۔
افغانستان سے سیکیورٹی خدشات کے بارے میں سوال پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے 2 خدشات ہیں، پہلا افغان مہاجرین جو پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد موجود ہیں اور تشویش کی بات یہ ہے کہ اگر افغانستان میں انسانی بحران شدید تر ہوا تو ملک میں پناہ گزینوں کا سیلاب آجائے گا، سقوط کابل سے اب تک 2 لاکھ 40 ہزار افغان شہری پاکستان آچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، دوسری چیز یہ کہ سقوط کابل سے پہلے افغانستان سے 3 گروہ کارروائیاں کر رہے تھے، ایک کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، دوسرا بلوچ دہشت گرد اور تیسرا داعش، ہمارا یقین ہے کہ جتنی افغان حکومت مستحکم ہوگی ان گروپس کو وہاں سے کارروائیاں کرنے کا موقع کم ملے گا۔
مزید پڑھیں: افغان عوام کی خاطر طالبان حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے، وزیر اعظم
'افغانستان سے بین الاقوامی دہشت گردی ہوئی تو طالبان نقصان اٹھائیں گے'
افغان طالبان کی جانب سے اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے بیان پر عمران خان نے کہا کہ مجھے ان پر بھروسہ ہے، جس نے بھی افغان طالبان کے ساتھ کام کیا ہے ایک بات آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی زبان پر قائم رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ ایسا کریں گے کیوں کہ یہ ان کے مفاد میں ہے اور طالبان حکومت اپنے عوام کی دیکھ بھال چاہے گی جو وہ اسی صورت کر سکتے ہیں کہ وہاں امن و تجارت ہو۔
طالبان کے القاعدہ اور غیر ملکی جہادی تنظیموں سے رابطے کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے خدشات سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر طالبان کی سرزمین سے بین الاقوامی دہشت گردی ہوگی تو وہ نقصان اٹھائیں گے اس لیے بین الاقوامی دہشت گردی روکنا ان کے مفاد میں ہے۔
'پاکستان کے معاشی استحکام کیلئے فرانس بہت اہم ہے'
فرانس سے تعلقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فرانس، پاکستان کے لیے انتہائی اہم ممالک میں سے ایک اور تجارتی شراکت دار ہے، میری بنیادی دلچسپی معاشی استحکام ہے جس کے تناظر میں فرانس بہت اہم ہے۔
فرانس سے تعلقات کس طرح مضبوط کیے جائیں؟ کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میں فرانسیسی صدر سے ملنا چاہوں گا اور دوطرفہ تعلقات پر بات کروں گا، میری ان سے کئی مرتبہ فون پر بات ہوچکی ہے۔
فرانس میں پاکستانی سفیر مقرر کرنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔
فرانس کے دورے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی نہیں لیکن میں یقیناً فرانس کا دورہ کرنا چاہوں گا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان امن کے لیے امریکا کے شراکت دار ہوسکتے ہیں، عمران خان
'بھارت کو تعلقات کیلئے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بحال کرنا ہوگی'
عمران خان نے اس بات سے اتفاق کیا کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدام سے سیکیورٹی خدشات بڑھے ہیں، اس کے بعد سے ہمارے بھارت کے ساتھ کوئی تعلقات نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بہت بے چینی ہے، ہم ایسی حکومت سے معاملہ کر رہے ہیں جس کے نظریے کی بنیاد ہی نفرت ہے، جس کا نظریہ، مسلم اقلیتوں بالخصوص پاکستان کے لیے نفرت پر ہے یہ ایک منطقی حکومت نہیں جس سے ہم بات چیت کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کا ہے جس کے لیے جب میں نے اقتدار سنبھالا تو نریندر مودی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، میں بھارت کو زیادہ تر پاکستانیوں سے بہتر جانتا ہوں، میرا خیال تھا کہ ہمارے ہمسایوں جیسے تعلقات ہوں لیکن ان کا ردِعمل دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے اس وقت کوئی تعلقات نہیں ہیں، ہم بھارت سے تعلقات بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بحال کرنی اور 5 اگست 2019 کے اقدامات کو واپس لینا ہوگا جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اس کے بعد ہی بات ہوسکتی ہے ورنہ یہ کشمیریوں کے ساتھ دھوکا ہوگا۔
'کشمیر براہِ راست پاکستان سے تعلق رکھتا ہے'
دفتر خارجہ کی جانب سے کشمیریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی باقاعدگی سے مذمت کرنے اور چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کے بارے میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں بات نہ کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سنکیانگ کوئی متنازع علاقہ نہیں، وہ چین کا حصہ ہے البتہ کشمیر، اقوامِ متحدہ کا تسلیم کردہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں معاملات بالکل الگ ہیں کیوں کہ ایک تہائی کشمیر پاکستان کے پاس ہے اور یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقہ ہے، اس لیے کشمیر براہِ راست پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں خاص کر شام، لیبیا، صومالیہ اور عراق میں مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن میرy خصوصی تحفظات کشمیر کے بارے میں ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا سے اسی طرح کے تعلقات چاہتے ہیں جیسے اس کے بھارت سے ہیں، وزیراعظم
'امریکا پر تنقید کا مرکزی پہلو افغانستان کی جنگ ہے'
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکا سے ہمیشہ بہت اچھے تعلقات رہے ہیں، میں ان کے کچھ پہلوؤں پر تنقید کرتا تھا اور مرکزی پہلو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں، پہلے ان کے مقاصد واضح نہیں تھے اس لیے کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ وہاں کیا کر رہے ہیں اور میرے خیال میں امریکیوں کو بھی نہیں معلوم تھا، کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہاں کامیابی کیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں نے افغانستان میں مہم جوئی پر تنقید کی اور دوسری چیز امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے قبضے پر ہم نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کو تربیت دی کیوں کہ وہ قبضے کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، پھر جب سوویت فورسز چلی گئی تو امریکی آگئے تو ہم نے جن لوگوں کو غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ کی تربیت دی تھی، انہیں بتا رہے تھے کہ امریکی قبضے کے خلاف جنگ دہشت گردی ہے اس لیے وہ ہمارے مخالف ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے اس لیے پاکستانی طالبان ہمارے خلاف ہوگئے کیوں کہ سوویت یونین کے خلاف تمام کارروائیاں قبائلی علاقوں سے کی گئیں، پھر وہاں کے لوگ پاکستانی طالبان بن گئے اور مجاہدین کے گروپ بھی ہمارے خلاف ہوگئے۔
'افغان حکومت سے تنازع آخری چیز ہوگی جو ہم چاہیں گے'
عمران خان نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے امریکا کے ساتھ مشترکہ مقاصد ہیں، ہم افغانستان سے کسی قسم کی دہشت گردی نہیں چاہتے، عالمی دہشت گردی کے خلاف ہیں جو کہ امریکا بھی چاہتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان، امریکا کی افغانستان سے متعلق فضا کی نگرانی اور آپریشن کی پالیسی اور حکمت عملی میں شامل ہوگا؟ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صرف طالبان حکومت کی اجازت سے ہوسکتا ہے، بصورت دیگر افغان حکومت سے تنازع وہ آخری چیز ہوگی جو ہم چاہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 80 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانے کے بعد پاکستان ایک اور تنازع کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہم امن میں امریکا کے شراکت دار ہیں لیکن تنازع میں نہیں۔
امریکی پالیسی میں تبدیلی کے بعد پاکستان کو چھوڑ دینے پر کیا آپ دھوکا کھایا ہوا محسوس کرتے ہیں کہ جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں پاکستانی قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں، یہ امریکا کی ذمہ داری نہیں تھی کہ پاکستان کے عوام کے مفادات کا تحفظ کرے، پاکستان نے خود کو استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب 80 کی دہائی میں افغان جنگ ختم ہوئی تو ایک سال بعد امریکا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کردیں، پاکستان کو اس وقت سے سیکھنا چاہیے تھا، اسی لیے میں نے 2001 کی امریکی جنگ میں شمولیت کی مخالفت کی تھی۔
عمران خان نے کہا کہ یہ 80 کی دہائی میں ہونے والے افغان جہاد کا نتیجہ تھا کہ پاکستان میں پہلی بار کلاشنکوف اور مذہبی منافرت والے عسکری گروپس سامنے آئے، اس وقت میں نے ان کا ساتھ دینے کی مخالفت کی تھی، میرا خیال تھا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جارج بش نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو نہیں چھوڑیں گے لیکن انہوں نے دوبارہ ایسا ہی کیا۔