• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

کرپٹو کرنسی کے خطرات، فوائد سے زیادہ ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک

شائع February 15, 2022
رضا باقر نے کہا کہ چین، بھارت اور روس سمیت کئی بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اسی طرح کے نتائج پر پہنچی ہیں— فوٹو: اسکرین گریب/ایم اےایس آئی سی/یوٹیوب چینل
رضا باقر نے کہا کہ چین، بھارت اور روس سمیت کئی بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اسی طرح کے نتائج پر پہنچی ہیں— فوٹو: اسکرین گریب/ایم اےایس آئی سی/یوٹیوب چینل

گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے کہا ہے کہ کرپٹو کرنسی کے فوائد سے زیادہ خطرات ہیں لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) مستقبل کی ممکنہ کرنسیوں کی سمجھ پیدا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے گورنر کی وہ تفصیلی تقریر جاری کی ہے جو انہوں نے حال ہی میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سالانہ سرمایہ کاری فورم میں کی تھی۔

گورنر نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ ٹیکنالوجیز مالیات کو جمہوری بنانے اور لوگوں کو ان کے مالی معاملات پر زیادہ طاقت اور کنٹرول دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس کا مقصد اچھا ہے، اس کے ذریعے نجی ڈیجیٹل کرنسیوں کو متعارف کروانا بھی مقصود تھا جس کے لیے مالی ثالثی کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کرپٹو کرنسی کی آڑ میں پاکستانیوں کے ساتھ اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مرکزی بینک کی حیثیت سے ہم ابھی تک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس میں ہمارے لیے اور مرکزی بینک کے بنیادی مقاصد کے لحاظ سے ممکنہ خطرات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ چین، بھارت اور روس سمیت کئی بڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹیں اسی طرح کے نتائج پر پہنچی ہیں جبکہ اسی وقت کئی ترقی یافتہ معیشتوں میں اس طرح کی ورچوئل کرنسیوں کے حوالے سے زیادہ مثبت حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔

کرپٹو کرنسیوں کے ساتھ وابستہ خطرات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ شکل میں نجی ڈیجیٹل کرنسیاں زیادہ تر قیاس آرائی پر مبنی ہیں اور اس نے خاص طور پر پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کو کوئی مضبوط استعمال اور حقیقی معاشی فوائد فراہم نہیں کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی قیاس آرائی کی نوعیت، قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ اور خاص طور پر ان کی منقسم اور غیر مرکزیت کی وجہ سے یہ معاشی اور مالیاتی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بِٹ کوائن کیا ہے، اور کیا آپ کو یہ خریدنا چاہیے؟

2007-08 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد دنیا نے ڈسٹری بیوٹڈ لیجر ٹیکنالوجی (ڈی ایل ٹی) نامی نئی ٹیکنالوجی پر مبنی کرپٹو کرنسیوں کا ظہور دیکھا۔

رضا باقر نے کہا کہ ڈی ایل ٹی کے اہم عناصر میں سے ایک مالیاتی خدمات کو ختم کرنا اور لوگوں کو سینٹرل لیجر یا مالیاتی ادارے کی ضرورت کے بغیر ادائیگی کرنے کے قابل بنانا ہے، تاہم ہم اجازت یافتہ اور اجازت کے بغیر لیجرز سمیت ڈی ایل ٹی کی بہت سی قسمیں دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں دنیا دیکھ رہی ہے کہ ڈی ایل ٹی پر مبنی بڑی تعداد میں نجی ڈیجیٹل کوائنز/کرنسیاں جاری کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق 17 ہزار سے زائد مختلف کرپٹو کرنسیاں ہیں جنہوں نے کچھ اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے، جن کی کُل مالیت حالیہ گراوٹ سے قبل 2 کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بٹ کوائن کی قیمت میں ریکارڈ کمی

مرکزی بینک کے گورنر نے کہا کہ دنیا اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مالی اختراعات کو بھی دیکھ رہی ہے جسے عام طور پر ڈی سینٹرلائزڈ فنانس یا ڈی فائی کہا جاتا ہے، جس کا مقصد ڈی ایل ٹی پروٹوکول اور مستحکم کوائنز کا استعمال کرتے ہوئے ثالث کے بغیر فنڈز کی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے مالی خدمات فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ فوائد بھی ہیں جو یہ ٹیکنالوجیز لائی ہیں، پیئر ٹو پیئر قرض دینے اور کراؤڈ فنڈنگ جیسی اختراعات کا استعمال کرنے سے سرمائے کی نقل و حرکت اور رسائی آسان ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی توقع ہے کہ ترسیلات زر کی سرحد پار منتقلی آسان اور لاگت کم آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ اپنی نامعلوم نوعیت کی وجہ سے کچھ کرپٹو کرنسیوں کو غیر قانونی اقتصادی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے کا خطرہ ہے۔

رضا باقر نے مزید کہا کہ ایسی صورتحال میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے گرے اکانومی اور کیپیٹل فلائٹ میں اضافے کا خطرہ ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024