• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پیسہ بٹورنے کیلئے میرے اور والدین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا، ظاہر جعفر

شائع February 14, 2022 اپ ڈیٹ February 15, 2022
عدالت نے نور مقدم کیس کی مزید سماعت 16فروری تک ملتوی کردی— فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے نور مقدم کیس کی مزید سماعت 16فروری تک ملتوی کردی— فائل فوٹو: ڈان نیوز

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کہا ہے کہ مذموم مقاصد کی تکمیل اور پیسہ بٹورنے کے لیے ان کے اور ان کے والدین خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا۔

اسلام آباد میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی نے نورمقدم قتل کیس کی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے دفاع کے شواہد پیش کیے جبکہ ذاکر جعفر کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے۔

مزید پڑھیں: نور مقدم کیس: مرکزی ملزم کی جانب سے دائر تینوں درخواستیں خارج

سماعت کے دوران ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ کے جونئیر وکیل راجا عظیم، مدعی کے وکیل نثار اصغر اور پروسیکیوٹر رانا حسن عباس عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل شہریار نواز نے تحریری جواب اور یو ایس بی عدالت میں جمع کرا دی۔

عدالت نے استفسار کیاکہ یہ یو ایس بی کس چیز کی ہے جس پر وکیل شہریار نواز نے کہاکہ یو ایس بی میں دو ویڈیوز ہیں، یہ ریلیشن شپ سے متعلق ہیں، اس پر نثار اصغر ایڈووکیٹ نے کہاکہ کیا ویڈیو کلپس ہمیں بھی مہیا کی جائیں گی تو وکیل اسد جمال نے کہاکہ جی آپ کو بھی دے دیتے ہیں۔

دوران سماعت نور مقدم کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کا تحریری بیان عدالت میں جمع کرا دیا گیا جس میں ملزم کا کہنا تھا کہ میں بے گناہ ہوں، مجھے اور میرے ساتھیوں کو غلط طور پر مقدمے میں گھسیٹا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم کیس: مجھے اور میرے والدین کو مقدمے میں غلط پھنسایا گیا، ظاہر جعفر

ملزم نے بیان میں مؤقف اپنایا کہ نور مقدم کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں تھا، نور نے مجھے زبردستی امریکا کی پرواز لینے سے منع کیا، نور مقدم نے کہا کہ میں بھی تمہارے ساتھ امریکا جانا چاہتی ہوں، نور نے دوستوں کو فون کر کے ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے حاصل کیے، ہم ایئرپورٹ کے لیے نکلے مگر نور نے ٹیکسی واپس گھر کی طرف کردیا اور میں اسے روک نہ سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے گھر میں نور نے دیگر دوستوں کو بھی ڈرگ پارٹی کے لیے بلایا ہوا تھا، جب پارٹی شروع ہوئی تو میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا، ہوش میں آیا تو مجھے باندھا ہوا تھا اور پولیس نے آکر مجھے بچایا۔

تحریری بیان میں کہا گیا کہ مجھے ہوش آنے پر پتہ چلا کہ نور کا قتل ہو گیا ہے، مجھے اور میرے والدین کو غلط طور پر پھنسایا جا رہا ہے کیونکہ یہ واقعہ میرے گھر میں ہوا ہے، پولیس آنے سے پہلے شوکت مقدم اور ان کے رشتہ دار ہمارے گھر موجود تھے لیکن ان سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے تفتیشی افسر نے نور مقدم کے فون کی سی ڈی آر صرف 20 جولائی 2021 کو صبح پونے 11 بجے حاصل کی، اس سے یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ نور نے کس کو ڈرگ پارٹی میں مدعو کیا تھا۔

مرکزی ملزم نے کہا کہ نام نہاد سوشل میڈیا کارکنوں اور فیمینسٹ تنظیموں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل اور پیسا بٹورنے کے لیے میرے اور میرے اہل خانہ کے خلاف منفی مہم پھیلائی۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم کے وکیل کا پولیس کی وضاحت مقدمے کا حصہ بنانے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ میرا ٹرائل ابھی زیر التوا تھا کہ میڈیا کارکنوں اور فیمینسٹ اداروں نے مجھے اپنی معصومیت ثابت کرنے کا موقع فراہم کیے بغیر مجھے پھانسی دینے کا مطالبہ شروع کردیا۔

دوران سماعت ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے جرح شروع کرتے ہوئے کہا کہ نور مقدم کا 23 جولائی کو جو موبائل برآمد ہوا وہ کدھر گیا، 29جولائی کو 161 کے بیان میں موبائل فون محرر مال خانہ کے سپرد کیوں نہ کیا گیا، مثبت ڈی این اے کی رپورٹ پر 376 کی دفعہ لگا دی گئی، گواہ 7 پارسل لے کر گیا اور گواہ 8 کرائم سین کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تھراپی والے کا خون مثبت میچ ہو کر آگیا، تھراپی ورک کے ملازم کا خون موقعے سے اٹھایا ہی نہیں گیا تو معلوم نہیں کیسے میچ ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سکندر حیات کا بیان ہے کہ اس نے سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دیکھی، سی ڈی آر دینے والے کے دستخط نہیں ہیں، جابر نے سی ڈی آر دی لیکن اس کے دستخط ہی نہیں ہیں لہٰذا سی ڈی آر ڈیٹا مشکوک ہے۔

وکیل نے کہاکہ تفتیشی افسر نے موقعے سے کوئی فنگر پرنٹ نہیں لیے، ہمارے خلاف سی ڈی آر کے سوال پر کوئی ثبوت نہیں، 27 جولائی کو صفحات 16 تھے جبکہ ذاکر جعفر کی سی ڈی آر ایڈٹ کی گئی کیونکہ والدین کو نامزد کرنا تھا، پانچ صفحات مدعی اور تین صفحات ملزم کے سی ڈی آر کے غائب ہیں، ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: ملزم ظاہر کی شرٹ پر مقتولہ کا خون لگا ہوا تھا، پولیس

ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی ایف آئی آر میں صرف ظاہر جعفر ملزم تھا، 24 جولائی کو مدعی شوکت مقدم کے بیان میں ذاکر جعفر، والدہ ملازم اور تھراپی ورکس کا ذکر آیا، 8 اگست کے بیان میں طاہر ظہور اور جان محمد کو نامزد کیا گیا، ذاکر جعفر، عصمت، افتخار اور جمیل 24 جولائی کو گرفتار ہوئے۔

اس موقع پر شوکت مقدم کا بیان عدالت میں پڑھا گیا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ نور نے کہا کہ دوستوں کے ساتھ لاہور جا رہی ہوں، یہ کہتے ہیں 19 جولائی کو معلوم ہوا بیٹی گھر میں نہیں۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ نور دو دن سے گھر پر نہیں تھی، پوری دنیا نے دیکھا وڈیو میں اکٹھے ڈانس کر رہے ہیں، ہمیں دکھ ہے کہ ایک کی بیٹی گئی اور دوسرے کے بوڑھے باپ کو جیل میں ڈال دیا گیا، ڈی وی آر کے مطابق وہ خود گئی اس کو حبس بے جا میں نہیں رکھا گیا، انتطامی مشینری لگی ہوئی تھی اور عبوری ضمانت پر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، تاریخ میں ایسا دوسرا کیس نہیں آئے گا جس میں ملزم عبوری ضمانت پر تھا اور تفتیشی ٹیم نے اسے گرفتار کر لیا۔

انہوں نے کہا کہ چار،چار دفعہ سی ڈی آر کا ڈیٹا بنا کر دیا گیا، کسی کی مہر ہی لگا دیتے کہ کس نے ڈیٹا دیا، دو ماہ بعد ان کو ڈیٹا کیسے مل گیا، پہلے سی ڈی آر کے ڈیٹا کا ذکر ہی نہیں تھا، 14 جولائی کا ڈیٹا بعد میں بنایا گیا سارا ڈیٹا خود تخلیق کیا گیا ہے، گواہ کیسے آکر کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی ڈیٹا ہے جو میں نے جاری کیا، سی ڈی آر کے ڈیٹا پر آئی ٹی کی مہر ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 22 ستمبر کو تفتیشی افسر 161 کا بیان لکھتا ہے، 161 کے بیان کا گواہ کوئی اور ہے اور سرکار نے مدثر عالم کو بنایا، یہ کوئی اور ہے۔

ذاکر جعفر نے کہا کہ 20 سے 23 جولائی تک شامل تفتیش کیا گیا اور 24 کو کون سا ثبوت آیا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا، 22 جولائی کو اپنے اسلحے کا لائسنس پیش کیا، میری اور مدعی کی 20 جولائی کو 10 منٹ کی کال ہے، عدالت کو کیوں آگاہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نور مقدم قتل کیس: مرکزی ملزم ظاہر جعفر ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ قرار

دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے اپنے دفاع میں شواہد عدالت میں پیش کر دیے جبکہ ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے بحث مکمل کر لی جس پر عدالت نے سماعت 16 فروری تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب نور مقدم کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو مزید 4 ہفتوں کی مہلت دے دی ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کے خط پر مقدمے کے حتمی فیصلے کی مدت میں مزید 4 ہفتوں کی توسیع کی گئی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے دو ماہ اور پھر 6 ہفتے میں کیس کے حتمی فیصلے کی مدت دے چکا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024