• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

حاملہ خواتین میں کووڈ سے ایک اور تباہ کن پیچیدگی کا انکشاف

شائع February 14, 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

حمل کے دوران کووڈ 19 کا شکار ہونے والی خواتین کے ہاں مردہ بچوں کی پیدائش یا پیدائش کے 28 دنوں کے اندر بچے کی موت کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اور اب ایک نئی طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

درحقیقت دیگر متعدد امراض کے برعکس کورونا وائرس حمل کے دوران ماں کے آنول میں بہت زیادہ پھیل کر تباہی مچاتا ہے جس سے بچہ آکسیجن کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔

طبی جریدے آرکائیوز آف پیتھولوجی اینڈ لیبارٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران 12 ممالک سے تعلق رکھنے والے محققین نے وائرس سے آنول کے متاثر ہونے سے 64 مردہ بچوں کی پیدائش اور 4 نومولود بچوں کی اموات کی جانچ پڑتال کی۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ سے متاثر حاملہ خواتین کی بہت کم تعداد کو آنول کو اس طرح کا نقصان پہنچنے کا سامنا ہوتا ہے اور ایسی خواتین وہ ہوتی ہیں جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی ہوتی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس سے متاثر خواتین کے آنول میں کلاٹنگ کا باعث بننے والے ایک پروٹین فیبرین کا ذخیرہ زیادہ ہوتا ہے جو خون کی روانی میں رکاوٹ بنتا ہے جبکہ ایسے خلیات بھی مرتے ہیں جو بچے تک غذا پہنچانے کام کرتے ہیں جبکہ غیرمعمولی قسم کی ورم بھی سامنے آتی ہے۔

محققین نے ان تباہ کن اثرات کو چونکا دینے والا قرار دیا جو اوسطاً آنول کے 77.7 فیصد حصے کو متاثر کرتے ہیں

انہوں نے کہا کہ اس سے بچے کے ٹشوز کو نقصان پہنچتا تو نظر نہیں آتا مگر آنول کو ہونے والا نقصان اتنا زیادہ اور تباہ کن ہوتا ہے کہ سنگین پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

اہم بات یہ تھی کہ تحقیق میں شامل کسی بھی خاتون کو کووڈ کی زیادہ شدت کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

محققین نے بتایا کہ آنول کی تباہی کووڈ کی ایک اور منفرد خاصیت نظر آتی ہے کیونکہ ہم نے کسی اور بیماری میں اس طرح کے نقصان کو دریافت نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ آسان الفاظ میں یہ وائرس آنول کو چبالیتا ہے اور بچے تک آکسیجن پہنچانے کی صلاحیت کو تباہ کردیتا ہے۔

نومبر 2021 میں امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ سے حاملہ خواتین کے اسقاط حمل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

سی ڈی سی کی جانب سے جاری تحقیق میں مارچ 2020 سے ستمبر 2021 کے دوران کووڈ 19 سے متاثرہ حاملہ خواتین اور اس بیماری سے محفوظ رہنے والی حاملہ خواتین کے ہاں مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح کا موازنہ کیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ سے متاثرہ حاملہ خواتین میں مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح 1.26 فیصد جبکہ دوسرے گروپ میں 0.65 فیصد رہی۔

مارچ 2020 سے ستمبر 2021 کے دوران امریکا بھر کے 736 ہسپتالوں میں 12 لاکھ بچوں کی پیدائش ہوئی۔

اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسینز اور اینٹی وائرل تھراپی سے وائرس کے آنول کو متاثر کرنے کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ویکسینیشن کرانے والی کسی ایک خاتون میں بھی اس طرح کی پیچیدگی کو نہیں دیکھا۔

اس سے قبل فروری 2022 کے آغاز میں امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے متاثر حاملہ خواتین میں حمل کی عام پیچیدگیوں کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس تحقیق میں 17 امریکی ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والی 13 ہزار سے زیادہ حاملہ خواتین کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے 24 سو میں کووڈ کی تشخیص ہوئی۔

سب خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش یکم مارچ سے 31 دسمبر 2020 کے دوران ہوئی اور محققین نے بیماری سے محفوظ رہنے والی خواتین کے گروپ کا موازنہ کووڈ کا سامنا کرنے والی حاملہ خواتین سے کیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ سے محفوظ رہنے والی خواتین کے مقابلے میں اس سے متاثر ہونے والی خواتین میں پیچیدگیوں کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ گیا۔

کووڈ کی معتدل سے سنگین شدت کا سامنا کرنے والی خواتین میں سنگین پیچیدگیوں کی شرح 26.1 فیصد تھی جبکہ دوسرے گروپ میں یہ شرح 9.2 فیصد تھی۔

اسی طرح کووڈ سے متاثر خواتین میں آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا امکان 45.4 فیصد رہا جبکہ دوسرے گروپ میں 2.4 فیصد تھا۔

بچوں کی قبل از وقت پیدائش کی شرح 26.9 فیصد دریافت ہوئی جبکہ دوسرے گروپ میں یہ 14.1 فیصد رہی۔

مردہ بچے کی پیدائش یا پیدائش کے بعد موت کی شرح کی .5 فیصد رہی۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے حاملہ بلکہ بچوں کو پیدا کرنے والی عمر کی خواتین کی ویکسنیشن کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024