حجاب پر پابندی: داخلی مسائل پر بیانات کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا، بھارت
بھارت میں اسکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کے حوالے سے احتجاج اور تنازع جاری ہے جس پر پاکستان اور امریکی حکام نے مذمت بھی کی جبکہ بھارتی وزارت خارجہ امور نے کہا کہ ہمارے داخلی مسائل پر ہمدردانہ بیانات کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان آرندام باغچی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مختصر بیان میں کہا کہ ‘ریاست کرناٹک میں چند تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کا معاملہ ہائی کورٹ کرناٹک میں زیر سماعت ہے’۔
مزید پڑھیں: بھارت: کرناٹک میں عدالتی فیصلہ آنے تک طالبات کے حجاب پر پابندی
انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے آئین کا فریم ورک اور میکنیزم اور ہماری جمہوری روایات میں ان مسائل کو دیکھا اور حل کیا جاتا ہے’۔
ترجمان نے بظاہر امریکی ترجمان کے بیان کے حوالے سے کہا کہ ‘جو لوگ بھارت کو اچھی طرح جانتے ہیں انہیں ان حقائق کا درست ادراک کرنا ہوگا، ہمارے داخلی مسائل پر ہمدردانہ بیانات کا خیرمقدم نہیں کیا جاتا’۔
یہ معاملہ گزشتہ ماہ اس وقت دنیا بھر میں نمایاں ہوا تھا جب بھارت کی ریاست کرناٹک کے ضلع اڈوپی کے سرکاری اسکول میں طالبات پر حجاب کے ساتھ کمرہ جماعت میں داخل ہونے پر پابندی لگادی گئی تھی اور طالبات کی جانب سے اسکول کے دروازے پر احتجاج کیا گیا تھا۔
جس کے بعد مذکورہ ریاست میں دیگر اسکولوں میں بھی اسی طرح کی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا تھا۔
بعد ازاں معاملہ اس وقت مزید سنگین صورت حال اختیار کر گیا جب ایک باحجاب طالبہ کو کرناٹک میں ہندو قوم پرست جماعتوں کے حامیوں نے گھیرنے کی کوشش کی اور نعرے بازی کی جبکہ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی تو بھارت اور پاکستان میں سیاست دانوں اور مشہور شخصیات نے بھی تنقید کی۔
پاکستان نے بھارتی ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے حکومت کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کرناٹک میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کرنے کے انتہائی قابل نفرت اقدام کی مذمت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: حجاب پر پابندی کے خلاف بھارت کی مزید ریاستوں میں احتجاج
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر پاکستان علما کونسل اور انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس کی اپیل پر جمعے کو دنیا بھر میں ‘بھارتی بیٹیوں کے ساتھ یوم یک جہتی’ منایا گیا۔
امریکا کے سفیر برائے مذہبی آزادی راشد حسین نے ایک روز قبل اپنے بیان میں حجاب پر پابندی کے عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی ریاست کو مذہبی لباس کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادی میں کسی کو بھی مذہبی لباس پہننے کی اجازت شامل ہوتی ہے، اسکولوں میں حجاب پر پابندی سے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اس سے خواتین اور لڑکیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں کرناٹک ہائی کورٹ نے طلبہ کو کہا تھا کہ زیر سماعت درخواست پر فیصلہ آنے تک اسکولوں میں حجاب نہ پہنیں جبکہ درخواست پابندی کے خلاف دائر کی گئی ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی نے کہا تھا کہ ہم ایک حکم جاری کریں گے لیکن جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو جاتا، کوئی بھی طالب علم مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرے۔
مزید پڑھیں: بھارت: باحجاب مسلمان لڑکی 'ہندوتوا' حامیوں کے سامنے ڈٹ گئی
درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے عبوری حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارے حقوق کی معطلی کے مترادف ہے لیکن عدالت نے کہا کہ یہ چند دنوں کا معاملہ ہے اور اس کے بعد سماعت ملتوی کردی۔
عدالت نے ریاست کو ان اسکولوں اور کالجوں کو دوبارہ کھولنے کی بھی ہدایت کی جنہیں وزیر اعلیٰ نے پابندی کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج کے سبب تین دن کے لیے بند کر دیا تھا۔