عالمی بینک کا قرض کے اگلے مرحلے کیلئے مزید اقدامات کا مطالبہ
عالمی بینک نے کئی کروڑ ڈالر کے قرضے کے پروگرام کے دوسرے مرحلے کے لیے پاکستان سے کم از کم چار اہم پیشگی اقدامات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی بینک کی جانب سے مطالبہ کیے گئے اقدامات میں اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اداروں کی مسلسل مضبوطی کے پروگرام (آر آئی ایس ای-ٹو) پر عمل درآمد شامل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی بینک کی جانب سے مطالبہ کیے گئے اہم پیشگی اقدامات میں حکام کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی ہم آہنگی کو یقینی بنانا، مالیاتی ذمہ داری اور ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005 میں ترامیم کے ذریعے قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو قابو کرنا، صوبائی جائیداد کی قیمتوں میں ٹیکس مقاصد کے لیے یکسانیت لانا اور جی ایس ٹی ریفنڈ کی مکمل کلیئرنس کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
آر آئی ایس ای-ٹو 2019 میں منظور شدہ پروگرام کی توسیع ہے اور اس کا مقصد ملک کی مالی پوزیشن کو بہتر بنانا اور جی ایس ٹی کی ہم آہنگی کے ذریعے مالیاتی خدمات میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کرتے ہوئے اور مالیاتی شعبے میں بہتر مسابقت کے ذریعے ترقی کو فروغ دینے کے اقدامات کی حمایت کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ورلڈ بینک اور پاکستان کے مابین ایک ارب 36 کروڑ ڈالر کی امداد کا معاہدہ
وزیر خزانہ شوکت ترین اور ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین اور ان کی ٹیم نے وزارت خزانہ میں اجلاس کے دوران ان پیشگی اقدامات پر غور کیا۔
سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں پاکستان میں عالمی بینک کے جاری منصوبوں اور پروگراموں پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں آر آئی ایس ای-ٹو پر بھی توجہ مرکوز کی گئی اور پروگرام کی بروقت تکمیل کے لیے کیے جانے والے کچھ پیشگی اقدامات پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔
جی ایس ٹی کی ہم آہنگی 2019 سے محدود کامیابی کے ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے حمایت یافتہ اور مالی امداد کی درمیانی مدت کی ٹیکس پالیسی کا حصہ رہی ہے، اس پروگرام کے تحت حکومت نے پانچ مختلف ٹیکس فائلنگ کے چاروں صوبوں اور مرکز میں موجود نظام کی جگہ ایک ڈیجیٹل فائلنگ پورٹل کے قیام کا وعدہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں: پلاننگ کمیشن عالمی بینک کی 50 لاکھ ڈالر کی تکنیکی امداد کے استعمال میں ناکام
فائلنگ پورٹل کا قیام کاروبار کرنے میں آسانی کو بہتر بنانے اور ٹیکس دہندگان کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
حکومت کا ماننا ہے کہ اس وقت موجودہ نظام کے تحت سیلز ٹیکس کی بنیاد بکھری ہوئی ہے، خدمات پر ٹیکس وصولی صوبائی ٹیکس کے نظام کے تابع ہے اور اشیا پر عائد ٹیکس جمع کرنا وفاقی حکومت کے ذمے ہے، ٹیکس بیس کی اس تقسیم کے باعث ٹیکس پالیسی کا ڈیزائن اور اس کا نظام شدید سمجھوتہ شدہ ہو گیا ہے۔
حکومت کے مطابق اس کے باعث ٹیکس کی بنیاد کی تعریف اور کریڈٹنگ پر بھی اختلاف ہے، یہ صورتحال کاروبار کے لیے تنازع اور دوہرے ٹیکس کا سبب ہے جس کے باعث اشیا کی تیاری کے اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہوتا ہے، درحقیقت یہ نظام کافی پیچیدہ ہے اور کاروبار کرنے کی لاگت کو بڑھا کر مسابقت کو نقصان پہنچاتا ہے۔