• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

وزیر اعظم عمران خان کی شادی کے خلاف درخواست خارج

شائع February 8, 2022
وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہے کہ درخواست گزار نکاح نامے میں شامل متعلقہ دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے علیحدہ درخواست دائر کر سکتا ہے— فائل فوٹو / ٹوئٹر
وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہے کہ درخواست گزار نکاح نامے میں شامل متعلقہ دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے علیحدہ درخواست دائر کر سکتا ہے— فائل فوٹو / ٹوئٹر

وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے اسلامی قوانین اور آئینی دفعات سے متعلق 10 سوالات کی بنیاد پر وزیر اعظم عمران خان کی شادی کے خلاف قانونی حکم جاری کرنے کی درخواست خارج کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل عدالت کے تین رکنی بینچ نے درخواست کو ناقابل سماعت قرار دینے کے ساتھ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست وفاقی شرعی عدالت (پروسیجر) رولز 1981 کے قانون کے مطابق دائر نہیں کی گئی۔

وفاقی شرعی عدالت کے حکم میں درخواست گزار کی جانب سے پوچھے گئے 10 سوالات بھی بتائے گئے ہیں۔

درخواست گزار نے سوال کیا تھا کہ کیا قرآن کریم بیوی کو اپنے شوہر سے نکاح ختم کرنے کا اختیار دیتا ہے، کیا مسلم بیوی جو بچوں کی ماں ہے دوسری شادی کے لیے اپنے شوہر سے خلع مانگ سکتی ہے، کیا قرآن پاک اس عورت کو اس طرح چھوڑے گئے بچوں کی ماں تسلیم کرتا ہے، اور کیا خلع کے بعد نکاح آئینی دفعات کے مطابق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریاست شریعت کے مطابق قانون سازی سے کیوں ہچکچا رہی ہے، وفاقی شرعی عدالت

وفاقی شرعی عدالت نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار نے اپنے دعوے کی تائید کے لیے سورہ طحہٰ کی صرف ایک آیت کا حوالہ دیا، عدالت نے مشاہدہ کیا کہ اس آیت کا خلع کی بنیاد پر نکاح کو ختم کرنے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، جسے درخواست میں نمایاں کیا جانے والا بنیادی مسئلہ ہونا چاہیے تھا۔

سوالنامے کے بارے میں بینچ کی رائے تھی کہ یہ سوالات رائج طریقہ کار کے خلاف ہیں، جبکہ درخواست میں اکثر سوالات غیر متعلقہ تھے اور ان کا ایف ایس سی کے دائرہ کار سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

وفاقی شرعی عدالت نے درخواست کو خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کچھ سوالات لغو، تضحیک آمیز اور بالکل غیر متعلقہ تھے، جبکہ نکاح سے متعلق دو سوالات نہ صرف انتہائی مبہم، پیچیدہ اور ناقابل فہم تھے، بلکہ انہیں بالکل بھی درخواست کا حصہ ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔

بینچ کی رائے تھی کہ اس معاملے پر کوئی بھی ریلیف حاصل کرنے کے لیے درخواست گزار نکاح نامے میں شامل متعلقہ دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے علیحدہ درخواست دائر کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں، وفاقی شرعی عدالت

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ درخواست گزار کو اجتماعی طور پر یا انفرادی طور پر کوئی ایسا قانون یا قانون کی کسی ایسی شق کی نشاندہی کرنی ہوگی جو نافذ کی گئی ہو یا جس کا اطلاق کیا گیا ہو اور جو قرآن پاک کے احکامات یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہو۔

خلع سے متعلق فیملی کورٹس ایکٹ کے سیکشن 10 سے متعلق بینچ کا کہنا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ عدالت پہلے ہی کر چکی ہے اور اب یہ ایک سابق اور بند باب ہے، تاہم عدالت نے یہ تجویز دی کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ کے سامنے زیر التوا اپیل میں فریق بن سکتا ہے۔

وفاقی شرعی عدالت کا درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے حکم نامے میں مزید کہنا تھا کہ درخواست گزار نے آئین کی ضرورت کے مطابق اور وفاقی شرعی عدالت (طریقہ کار) رولز، 1981 میں بیان کیے گئے قانون کے مطابق کسی اقدام کی قانون کی کسی خاص شق یا قرآن و سنت کے احکام کے خلاف ہونے کی وضاحت نہیں کی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024