• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

’کورونا کو مذاق سمجھا، بھائی بستر مرگ پہنچا تو آنکھیں کھلیں‘

شائع February 9, 2022
کورونا کی طرح لوگوں نے ویکسین سے متعلق بھی افواہوں پر یقین کیا—فائل فوٹو: رائٹرز
کورونا کی طرح لوگوں نے ویکسین سے متعلق بھی افواہوں پر یقین کیا—فائل فوٹو: رائٹرز

جون 2021 کی گرمیوں میں طویل لاک ڈائون کے بعد 30 سالہ محمد اقبال شام کے اوقات میں دفتر کی چھٹی کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ سمندر کنارے موجود تھے کہ وہ گھر سے فون کال آنے پر دوستوں کے ہمراہ جلدی سے جناح ہسپتال پہنچے۔

ہسپتال پہنچنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بڑے بھائی کی طبیعت حد سے زیادہ خراب ہوچکی ہے اور انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا ہے۔

کچھ گھنٹے قبل جو محمد اقبال اور ان کے دوست مزے سے سمندر کنارے کورونا اور ملکی حالات پر بات کر رہے تھے، اب وہ ہسپتال میں سہمے ہوئے تھے۔

کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود محمد اقبال کو ان کے بھائی سے ملنے نہیں دیا گیا، کیوں کہ کورونا وارڈ میں ملاقات کا سلسلہ بند تھا۔

محمد اقبال کے دوست رات دیر گئے وہاں سے چلے گئے مگر انہیں وہاں رکنا پڑا اور اگلے دن ان کے بھائی کی طبیعت مزید بگڑ گئی اور ان کے بھائی کو جناح ہسپتال سے ایکسپو سینٹر پر بنائے گئے کورونا کے عارضی ہسپتال منتقل کیا گیا اور وہاں بھی انہیں وینٹی لیٹر پر ہی رکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پہلا کورونا کیس رپورٹ

محمد اقبال اپنے بڑے بھائی کے شدید علیل ہونے کی وجہ سے دفتر بھی نہ جا سکے جب ان کے اہل خانہ سمیت ان کے دوستوں کی زندگی ایک ہفتے تک عجب کشمش میں مبتلا رہی لیکن آہستہ آہستہ وہ زندگی کی طرف لوٹے اور ان کے بھائی کو 10 دن بعد کورونا سینٹر سے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

ایکسپو سینٹر میں دوران علاج ہی محمد اقبال کے بھائی کا کورونا ٹیسٹ منفی آ چکا تھا مگر اس کے باوجود انہیں کمزوری اور سانس لینے میں مشکلات کی وجہ سے مزید دو دن رہنا پڑا۔

محمد اقبال کے بھائی 45 سالہ محمد افضال سرکاری اسکول میں پڑھاتے ہیں مگر ان دنوں اسکول بھی بند تھے لیکن اس کے باوجود وہ کورونا کا شکار ہوگئے۔

وزیر اعظم عمران خان نے تین فروری 2021 کو ویکسینیشن کا آغاز کیا تھا، اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل نے پہلی ویکسین لگوائی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم عمران خان نے تین فروری 2021 کو ویکسینیشن کا آغاز کیا تھا، اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل نے پہلی ویکسین لگوائی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

محمد افضال تقریبا تین ہفتوں تک شدید علیل رہے، اگرچہ ان کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی مگر انہیں پہلے ہی سانس لینے میں مشکلات کا مسئلہ درپیش تھا، جس وجہ سے ان میں کورونا کی علامات شدید ہوئیں۔

جون تک پاکستان میں عام افراد کو ویکسینیشن لگانا شروع کردی گئی تھی مگر دیگر لوگوں کی طرح محمد افضال نے بھی قیاس آرائیوں پر توجہ دیتے ہوئے پہلے مرحلے میں ویکسین لگوانے سے گریز کیا، جس وجہ سے وہ موت کے منہ تک جا پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پہلی مرتبہ کورونا سے 200 سے زائد اموات ریکارڈ

محمد اقبال نے بتایا کہ جب محمد افضال کو شدید بیمار ہونے کے بعد ہسپتال لے جایا گیا، تب ہی انہیں وہاں ویکسین لگائی گئی۔

ان کے مطابق ویکسین لگوانے کے باوجود ان کے بھائی کم از کم 3 دن تک وینٹی لیٹر پر ہی رہے، تاہم پھر آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بہتر ہوئی اور انہیں گھر جانے کی اجازت ملی۔

ایک سوال کے جواب میں محمد افضال نے بتایا کہ انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھاکہ انہیں کورونا ہوگا اور اگر ہوگا تو اس قدر ان میں شدید علامات بھی ظاہر ہوں گی، جس وجہ سے ہی انہوں نے ویکسینیشن کروانے میں بھی سستی کی۔

انہوں نے اور ان کے بھائی محمد اقبال نے تسلیم کیا کہ جب تک خود ان کے گھر میں کورونا کا کیس سامنے نہیں آیا تب تک وہ وبا کو مذاق ہی سمجھ رہے تھے، اسی طرح ویکسین کے حوالے سے بھی وہ عام لوگوں کی باتوں کو ذہن میں رکھتے تھے مگر محمد افضال کی طبیعت بگڑنے کے بعد ان کے ذہنوں میں کورونا اور ویکسینیشن سے متعلق کوئی دو رائے نہیں رہی تھیں۔

محمد اقبال نے بتایا کہ ان کے بھائی کو کورونا کی شدید تکلیف میں دیکھنے کے بعد ان کے دوست بھی وبا کی حساسیت کو سمجھ گئے اور انہوں نے بھی سختی سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے تین فروری 2021 کو ویکسینیشن کا آغاز کیا تھا، اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل نے پہلی ویکسین لگوائی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعظم عمران خان نے تین فروری 2021 کو ویکسینیشن کا آغاز کیا تھا، اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل نے پہلی ویکسین لگوائی تھی—فائل فوٹو: ڈان نیوز

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کورونا ویکسینیشن سے متعلق انہوں نے بہت ساری افواہیں سن رکھی تھیں مگر وہ جانتے تھے کہ کبھی نہ کبھی انہیں ویکسین لگوانی ہی پڑے گی لیکن شروع میں انہوں نے اس لیے تاخیر کی، تاکہ وہ ویکسینیشن کروانے والے افراد کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو دیکھ کر فیصلہ کریں۔

ان کے مطابق تاہم معاملات ان کی منصوبہ بندی کے الٹ ہوگئے اور ان کے بھائی کی طبیعت خراب ہونے اور ان کی ویکسینیشن کروانے کے بعد سب نے ویکسین لگوالی۔

ساتھ ہی انہوں نے دلیل بھی دی کہ ابتدا میں حکومت نے ویکسینیشن کے عمل کو کچھ پیچیدہ اور عام لوگوں کے لیے مشکل بھی بنا رکھا تھا اور اس متعلق میڈیا میں کوئی خاص تشہیری مہم بھی نہیں چلائی گئی، جس وجہ سے ان سمیت کئی لوگ ویکسینیشن سے متعلق شبہات کا شکار رہے۔

محمد اقبال کی طرح منور اور ان کے اہل خانہ بھی کورونا کو شروع میں مذاق سمجھتے تھے مگر جب ان کے قریبی رشتے دار وبا کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے تو ان کی آنکھیں کھلیں۔

مزید پڑھیں: ملک میں وبا کے آغاز سے اب تک پہلی بار ریکارڈ کیسز رپورٹ

منور کے تقریبا نصف اہل خانہ کورونا کا شکار ہوئے اور وہ تمام لوگ وبا کی پہلی لہر کے دوران اس سے متاثر ہوئے اور تب تک دنیا میں ویکسین کا نام و نشان ہی نہیں تھا۔

منور کی اہلیہ، عمر رسیدہ والدین اور پولیس میں ملازمت کرنے والے بھائی سمیت قریبی رشتے دار بھی کورونا کا شکار ہوئے اور تقریبا تمام لوگ تین سے چار ہفتوں میں صحت یاب ہوئے۔

اگرچہ منور سمیت ان کے عمر رسیدہ والدین اور دیگر اہل خانہ میں کورونا کی شدید علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں مگر ان ہی کے قریبی رشتے دار وبا کے باعث زندگی کی بازی بھی ہار گئے، جس وجہ سے ان کے تمام رشتے دار مزید حساس بن گئے اور انہوں نے احتیاطی تدابیر سخت کردیں۔

سینیٹر مہر تاج روغانی نے وزارت صحت سے ویکسینیشن کے بعد اموات سے متعلق سوال کیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
سینیٹر مہر تاج روغانی نے وزارت صحت سے ویکسینیشن کے بعد اموات سے متعلق سوال کیا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

منور نے بتایا کہ جیسے ہی پاکستان میں ویکسینیشن کا آغاز ہوا تو ان کے بھائی کو پولیس فورس میں ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے ویکسین لگی جب کہ والدین کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بھی انہیں جلد ویکسین لگی۔

ساتھ ہی انہوں نے شکر ادا کیا کہ حکومت نے جلد ہی چالیس سال کے افراد کے لیے بھی ویکسینیشن کا اعلان کیا تو انہوں نے بھی اہلیہ کے ہمراہ ویکسین لگوائی۔

جب منور اور ان کی اہلیہ نے ویکسین لگوائی تب دونوں کورونا سے صحت یاب ہوچکے تھے اور ان کے ہاں جلد ننھے مہمان کی آمد بھی متوقع تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے کورونا ویکسینیشن مہم کا باضابطہ آغاز کردیا

ایک سوال کے جواب میں منور نے بتایا کہ انہوں نے بھی ویکسینیشن سے متعلق افواہیں سن رکھی تھیں اور انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ویکسین لگوانے والے افراد دو سال کے اندر مر جائیں گے۔

کورونا ویکسین لگوانے کے بعد دو سال میں مرجانے کی باتوں نے نہ صرف منور جیسے عام لوگوں کو پریشان کیا بلکہ ایسی افواہوں نے پڑھے لکھے افراد کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں اور ایسی افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ ویکسینیشن کے بعد پاکستان میں زیادہ اموات ہونے لگی ہیں۔

کورونا ویکسینیشن کی وجہ سے اموات بڑھنے کی افواہوں کے بعد ہی خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینیٹر ڈاکٹر پروفیسر مہر تاج روغانی نے وفاقی وزارت صحت سے یہی سوال کیا کہ ویکسین سے اموات کی افواہوں سے متعلق وضاحت کی جائے اور مرنے والے افراد کا ڈیٹا فراہم کیا جائے۔

وزارت صحت نے پروفیسر مہر تاج روغانی کے سوال پر سینیٹ میں تحریری جواب جمع کروایا کہ ایسی افواہوں میں کوئی سچائی نہیں کہ کورونا ویکسین سے اموات ہوتی ہیں۔

کولن پاول بلڈ کینسر سمیت دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھے—فائل فوٹو: کولمبیا جرنل ریویو
کولن پاول بلڈ کینسر سمیت دیگر بیماریوں میں بھی مبتلا تھے—فائل فوٹو: کولمبیا جرنل ریویو

وزارت صحت کی جانب سے عالمی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کہیں بھی ایسی رپورٹ یا تفتیش سامنے نہیں آئی، جس سے واضح ہو کہ ویکسین کے بعد موت ہوجاتی ہے۔

وزارت صحت نے بتایا کہ اب تک کی ہونے والی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ کورونا ویکسینز انسان کو بیماری سے محفوظ رکھتی ہیں اور ویکسینیشن نہ کروانے والے افراد میں 10 گنا زیادہ بیمار ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔

وزارت صحت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ اگر ویکسینیشن کروانے کے باوجود بھی کوئی شخص کورونا کا شکار ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار جاتا ہے تو اس کی دیگر بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: ملک میں ایک دن میں 15 لاکھ سے زائد ویکسین لگانے کا نیا ریکارڈ قائم

وزارت کے مطابق ایسی اموات کو کورونا ویکسین سے جوڑنے سے قبل اموات کے اسباب کا مکمل جائزہ لیا جانا چاہیے۔

اگرچہ پاکستان میں ایسا کوئی اسکینڈل یا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا جن میں انتقال کرجانے والے کسی شخص کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا ہو کہ وہ کورونا ویکسین لگنے کی وجہ سے جاں بحق ہوا، تاہم عالمی سطح پر کچھ ایسے واقعات پیش آئے مگر بعد ازاں تفتیش سے ثابت ہوا کہ اموات کی دیگر وجوہات بھی تھیں۔

ویکسینیشن کے بعد کورونا سے موت کے حوالے سے دنیا میں سب سے بڑا اسکینڈل سابق امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا تھا جو 84 سال کی عمر میں اکتوبر 2021 میں چل بسے تھے۔

اگرچہ وہ کورونا کی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہوئے تھے مگر وہ بلڈ کینسر کے بھی مریض تھے اور امریکی میڈیا نے اس بات پر کئی تفتیشی رپورٹس بھی شائع کیں کہ انہوں نے ویکسین کی دو خوراکیں لے رکھی تھیں مگر اس کے باوجود وہ چل بسے۔

کولن پاول کی موت پر کئی ہفتوں تک امریکی میڈیا میں انکشافات اور رپورٹس شائع ہوتی رہیں مگر بلآخر افواہیں دم توڑ گئیں اور ماہرین نے تحقیق کے بعد کہا کہ ان کی موت کی مختلف وجوہات تھیں اور کورونا کی ویکسینز کو مورد الزام ٹھہرانا عقلمندی نہیں۔

کورونا ویکسین کے منفی اثرات کی وجہ سے ہلاک ہونے کا دوسرا عالمی اسکینڈل برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی میزبان لیزاشا کی موت کا واقعہ بنا جو کہ مئی 2021 میں ہلاک ہوئی تھیں۔

میزبان کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا تھا کہ لیزاشا کورونا کی ویکسین لگوانے کے بعد شدید بیمار ہوکر موت کے منہ میں چلی گئیں اور ان کی موت پر بھی کئی تحقیقات ہوئیں۔

تاہم کورونا ویکسینز سے متعلق امریکا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل، چین، جاپان اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ہونے والی تحقیقات اور ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا ویکسینز کے بعض افراد پر معمولی منفی اثرات تو ہوتے ہیں، تاہم ان کے سائیڈ افیکٹس کسی کی موت کا سبب نہیں بنے۔

لیزاشا بی بی سی کی میزبان تھیں—فوٹو: بی بی سی
لیزاشا بی بی سی کی میزبان تھیں—فوٹو: بی بی سی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024