انسانوں کو دانستہ طور پر کووڈ سے متاثر کرنے کے ٹرائل کا اولین ڈیٹا سامنے آگیا
ناک سے خارج ہونے والے ایک وائرل ذرہ بھی لوگوں کو کووڈ 19 کا شکار بنادینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی اپنی نوعت کی پہلی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
امپرئیل کالج کی اس تحقیق میں صحت مند افراد کو دانستہ طور پر وائرس کی ایک خوراک دی گئی تھی۔
اس ٹرائل میں بیماری کے دوران سب سے پہلے رضاکاروں کی مانیٹرنگ کی گئی جس سے دریافت ہوا کہ مریضوں میں بیماری کی علامات عموماً بہت جلد یعنی وائرس کا سامنا کرنے کے 2 دن کے اندر نمودار ہوجاتی ہیں، مگر کچھ افراد میں یہ وقت 5 دن کا بھی ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں وائرس کی ایلفا، ڈیلٹا اور اومیکرون اقسام ابھرنے سے پہلے کی ایک قسم کو دریافت کیا گیا تھا۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق سے چند دلچسپ انکشافات ہوئے بالخصوص وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے دورانیے ناک سے بہت زیادہ وائرل ذرات کے اخراج اور دیگر۔
تحقیق میں 36 صحت مند جوان افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں اس وائرس کے خلاف کوئی مدافعت موجود نہیں تھی، ان کی مانیٹرنگ لندن کے ایک ہسپتال کے خصوصی یونٹ میں کی گئی۔
وائرس سے متاثر کیے جانے کے بعد کسی بھی فرد کو بیماری کی سنگین علامات ک سامنا نہیں ہوا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے پہلے سے حلق میں ظاہر ہوتی ہے اور متعدی وائرس بیمار ہونے کے 5 دن بعد سب سے زیادہ عروج پر ہوتا ہے، اس موقع پر ناک میں حلق سے زیادہ مقدار میں وائرل لوڈ ہوتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی عندیہ دیا گیا کہ لیٹرل فلو ٹیسٹ بیماری کی شخیص کے لیے ایک قابل اعتبار ذریعہ ہیں۔
محققین نے بتایا کہ بیماری کے پہلے یا دوسرے دن ان کی حساسیت کم ہوسکتی ہے مگر انہیں درست طریقے سے اور بار بار استعمال کیا جائے تو درست نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس ٹرائل سے اس طرح کے مزید چیلنج ٹرائلز کا راستہ کھل جائے گا جو زیادہ بہترین ویکسینز اور اینٹی وائرل ادویات کی تیاری کے عمل کو تیز کرسکے گا۔
برطانیہ کے ڈپٹی چیف میڈیکل آفیسر پروفیسر جوناتھن وان ٹام نے بتایا کہ سائنسی طور پر اس طرح کے ٹرائل سے حقیقی فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ وائرس سے متاثر ہونے کا درست وقت پتا چلتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم تحقیق ہے جس سے کووڈ 19 کے بارے میں مزید بنیادی ڈیٹا ملا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ کس طرح پھیلتا ہے، جس سے ہم اپنے ردعمل کا تعین کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے اسپرنگر نیچر کے پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔