جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا
جسٹس عمر عطا بندیال نے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔
اسلام آباد میں ایوان صدر میں منعقدہ حلف برداری کی تقریب میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے عہدے کا حلف لیا۔
حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی برائے صوبائی برائے کھیل و بین الاقوامی روابط فہمیدہ مرزا، وزیر اطلاعات فواد چوہدری سمیت وفاقی کابینہ کے دیگر وزرا، مسلح افواج کے افسران اور وکلا برادری نےشرکت کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد باضابطہ چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے۔
مزید پڑھیں: عمر عطا بندیال باضابطہ طور پر ملک کے اگلے چیف جسٹس مقرر
جسٹس عمر عطا بندیال آج سے 28 ویں چیف جسٹس آف پاکستان کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جسٹس عمر بندیال کی میز پر 51 ہزار 766 مقدمات فیصلے کے منتظر ہوں گے، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں اور ضلعی عدالتوں میں کم و بیش 21 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر 2023 تک عہدے پر خدمات انجام دیں گے جس کے بعد یہ عہدہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنبھالیں گے۔
سنیارٹی اسکیم کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی 25 اکتوبر 2024 تک چیف جسٹس رہیں گے جس کے بعد 282 ایام کے لیے جسٹس اعجازالاحسن عہدے پر تعینات ہوں گے۔
بعدازاں 4 اگست 2025 سے جسٹس منصور علی شاہ عہدہ سنبھالیں گے۔
’فیصلوں پر تنقید کریں، ججز پر نہیں‘
یاد رہے گزشتہ روز جسٹس عمر عطا بندیال نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں اعلیٰ عدلیہ کو پیش آئی مشکلات پر تفصیلی بات کرتے ہوئے ججز کے فیصلوں اور ججز پر حملے کرنے پر مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سابق چیف جسٹس کے اعزاز مین فل کورٹ ریفرنس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ'قانونی معاملات میں ججز کی آرا میں اختلاف ہمارے انفرادی تصورات سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تنوع ہماری سمجھ میں بہتری لاتا ہے'۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے تفصیلی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح گزشتہ روز کا اقلیتی نظریہ اکثریت کا فیصلہ بھی بن سکتا ہے'۔
انہوں نے اس طرح کے طرز عمل کو 'غیر پیشہ ورانہ اور غیر مہذب ہونے کے علاوہ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا۔
کمزوریوں کی نشاندہی اور ان کے تدارک کے لیے عدالت عظمیٰ سمیت تمام عدالتوں کے کارکردگی کا آڈٹ کا خیال پیش کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے وکلا برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ تحریری بریفنگ، جامع بیانات اور وکیل کی طرف سے دلائل پر زیادہ انحصار کو یقینی بنا کر سماعت ملتوی کرنے کے کلچر کو ختم کرکے عدالت کا وقت بچانے میں مدد کریں۔
جسٹس عمر بندیال کا پیشہ ورانہ سفر
جسٹس عمر عطا بندیال 17 ستمبر 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوہاٹ، راولپنڈی، پشاور، اور لاہور سے حاصل کی، جبکہ کولمبیا یونیورسٹی سے معیشت میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
مزید پڑھیں: جسٹس عمرعطاء بندیال نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا
بعد ازاں انہوں نے کیمبرج سے لا ٹرائپوس ڈگری حاصل کی اور لندن کے معروف لنکنز ان میں بطور برسٹر خدمات انجام دیں۔
1983 میں آپ بطور ایڈوکیٹ لاہور ہائی کورٹ کی فہرست میں شامل ہوئے اور کچھ سالوں بعد بطور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان خدمات انجام دیں۔
لاہور میں اپنی پریکٹس کے دوراب جسٹس بندیال نے عموماً کمرشل بینکنگ، ٹیکس اینڈ پراپرٹی کے معلامات حل کیے، جسٹس 1993 کے بعد جسٹس عہدے پر فائز ہونے تک آپ نے بین الاقوامی تجارتی تنازعات کو بھی سنبھالا۔
جسٹس عمر بندیال سپریم کورٹ اور لندن اور پیرس کی متعدد بین الاقوامی عدالتوں میں بطور ثالثی بھی پیش ہوچکے ہیں۔
جسٹس عمر بندیال کو 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج طور پر مقرر کیا گیا تھا ان کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نومبر 2007 کے پروویژنل کونسٹی ٹیوشن آرڈر (پی سی او) کے حلف لینے سے انکار کردیا تھا، اس وقت 3 نومبر 2007 کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قائم مقام چیف جسٹس کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے طویل ملاقات
تاہم عدالت کی بحالی کے سلسلے میں وکلا تحریک کے نتیجے میں انہیں جج کے عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس عمر بندیال نے دو سال کے لیے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خدمات انجام دیں جبکہ جون 2014 میں ان کا تقرر سپریم کورٹ میں کردیا گیا۔
اعلیٰ عدلیہ میں اپنے کریئر کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے سرکاری اور نجی قانون کے مسائل پر کئی اہم فیصلے سنائے، ان میں دیوانی اور تجارتی تنازعات، آئینی حقوق اور مفاد عامہ کے معاملات شامل ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے 1987 تک پنجاب یونیورسٹی لا کالج لاہور میں کنٹریکٹ لا اور ٹارٹس لا بھی پڑھایا اور لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس کی گریجویٹ اسٹڈیز کمیٹی کے رکن رہے۔