• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

صدارتی نظام پر جاری بحث کے خلاف سینیٹ میں قرارداد منظور

شائع February 1, 2022
حکومتی ممبران نے بھی قرراداد کی مخالفت نہیں کی اور ایوان کی جانب سے قرار داد منظور کر لی گئی۔—فائل فوٹو: اے پی پی
حکومتی ممبران نے بھی قرراداد کی مخالفت نہیں کی اور ایوان کی جانب سے قرار داد منظور کر لی گئی۔—فائل فوٹو: اے پی پی

ملک میں صدارتی نظام حکومت کی تشہیر کے لیے چلائی جانے والی منظم مہم کے خلاف سینیٹ میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدام کے وفاق کے لیے تباہ کن اثرات ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قرارداد میں 1973 کے آئین کے مطابق پارلیمانی طرز حکومت کو برقرار رکھنے اس کا تحفظ کرنے کے عزم ظاہر کیا گیا، جسے ایوان میں موجود تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے پیش کیا۔

حکومتی اراکین نے بھی اس قرارداد کی مخالفت نہیں کی اور ایوان نے قرار داد منظور کر لی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: 'صدارتی نظام کسی لحاظ سے موزوں نہیں، آئین میں کوئی ردوبدل قبول نہیں کریں گے'

سینیٹ میں قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے واضح کیا کہ ملک میں صدارتی نظام پر جاری بحث سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قرارداد کو پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس سے ان قوتوں کو مزید تقویت ملے گی جو ایسی مہم کے پیچھے ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر زیر بحث موضوعات کو مین اسٹریم میڈیا پر اٹھائے جانے پر بالواسطہ تنقید کی اور کہا کہ سینیٹ کو اس طرح کی بحثوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے تھا۔

مشترکہ اپوزیشن کے ارکان نے اسی طرح کی ایک قرارداد قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں بھی جمع کرائی ہے جس میں 1973 کے آئین کے مطابق ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایوان ایک قرار داد منظور کر کے صدارتی نظام کو ہمیشہ کیلئے دفن کردے، شاہد خاقان

اپوزیشن جماعتوں نے پہلے الزام لگایا تھا کہ اس طرح کی مہم چلانے کے پیچھے ہر محاذ پر ناکام حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جو عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانا چاہتی تھی۔

تاہم وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس تاثر کی واضح طور پر تردید کی تھی اور ایمرجنسی یا صدارتی نظام کے بارے میں قیاس آرائیوں کو کچھ یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی جانب سے ملک میں رائج جعلی خبروں کے کلچر کا حصہ قرار دیا تھا۔

’قائد اعظم نے وفاقی پارلیمانی طرز حکومت کا تصور پیش کیاتھا‘

سینیٹ کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر وفاقی پارلیمانی طرز حکومت کو کمزور کرنے کے لیے ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔

قرارداد میں یہ یاد دلایا گیا کہ بانیِ قوم قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے لیے وفاقی پارلیمانی طرز حکومت کا تصور پیش کیا تھا، پاکستان کے عوام نے وفاقی پارلیمانی طرز حکومت کے لیے انتھک جدوجہد اور قربانیاں دی ہیں۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سینیٹ اس حقیقت کا مکمل شعور رکھتا ہے کہ پاکستان ایک مشترکہ فیڈریشن ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ 1973 کا آئین پاکستان کو طاقت کے تین سرچشموں (عدلیہ کی آزادی، صوبائی خودمختاری اور اس کے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ) کے ساتھ پارلیمانی طرز حکومت کے تحت ایک وفاق بننے کا تصور دیتا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ صدارتی طرز حکومت ایک ’یونٹری فارم آف گورنمنٹ‘ متعارف کروائے گا جس میں پورے آئین کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کے مشیر نے صدارتی نظام کی باتیں مسترد کردیں

قرارداد کے ذریعے سینیٹ نے متنبہ کیا ہے کہ بین الصوبائی اور وفاقی صوبائی انتشار، اندرونی سیاسی عدم استحکام، علاقائی صورتحال اور پاکستان کو کالونی بنانے کی عالمی سازشوں کے پیش نظر نئے آئین پر قومی اتفاق رائے ناممکن ہو جائے گا۔

اس سے قبل سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے ایک بیان میں خیبر پختونخوا کے گورنر شاہ فرمان سے ملک میں صدارتی طرز حکومت کی حمایت میں مبینہ بیان پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاہ فرمان نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ پاکستان موجودہ پارلیمانی نظام کے مقابلے میں صدارتی نظام کے تحت بہتر طریقے سے چلایا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ صدارتی نظام کرپشن کا خاتمہ کرے گا اور وفاقی اکائیاں مضبوط ہوں گی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024