افغان مہاجرین کی مدد کرنے پر اقوامِ متحدہ کے سربراہ پاکستان، ایران کے معترف
دنیا کو افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھنے کی یاد دہانی کرواتے ہوئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس نے کہا کہ پاکستان اور ایران نے لاکھوں افغان شہریوں کی میزبانی کرتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل میں افغانستان پر ہونے والی بحث میں اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’میں پاکستان اور ایران جیسے ممالک کی فراخ دلی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ، جو دہائیوں سے لاکھوں افغان شہریوں کی میزبانی کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ہمیں عالمی برادری اور اس کونسل کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کا پہیہ چلانے، وسائل فراہم کرنے اور افغانستان کو مزید مشکلات سے بچانے میں اپنا حصہ شامل کیا جائے‘۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے شرکا کو بتایا کہ پاکستان ’افغان بہن بھائیوں کی مدد کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر رہا ہے‘۔
مزید پڑھیں: طالبان کی غلطیوں کیلئے افغان عوام کو سزا نہ دیں، سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ
ان ک اکہنا تھا ہم مسلسل 40 لاکھ افغان مہاجرین کا خیال رکھ رہے ہیں، اور جب تک وہ واپس وطن جانے کے قابل نہیں ہوجاتے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
پاکستانی مندوب نے دنیا کو یاد دہانی کروائی کہ صرف انسانی امداد افغانستان کی معیشت کو بحال نہیں کرسکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سب بڑھ کر یہ کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے، افغان شہریوں کو ان کے قومی اثاثوں سے محروم رکھنے کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے'۔
خیال رہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکا کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے تقریباً ساڑھے 9 ارب ڈالرز کے اثاثے منجمد کرتے ہوئے افغانستان کو نقد کی ترسیل روک دی تھی تاکہ طالبان کو ملک کی دولت تک رسائی سے روکا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا افغانستان میں انسانی بحران سے نمٹنے کیلئے 60 کروڑ ڈالر کا مطالبہ
دسمبر میں57 اقوام کی اسلامی تعاون تنظیم نے اسلام آباد میں ملاقات کی اور افغانستان کے اثاثوں کو بحال کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے کا عزم کیا۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم کا کہنا تھا کہ ’یہ رقم افغانستان کی معیشت کو مضبوط، مستحکم، اور بحال کرنے کےلیے بہت ضروری ہے تاکہ لاکھوں افغان بچوں، خواتین اور مردوں کو غربت اور فاقوں سے بچایا جاسکے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے اثاثے بحال کرنا، افغان شہریوں کے ساتھ یکجہتی کا سب سے مؤثر اور دریا دلی کا مظاہرہ ہوگا‘۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھی اپنے خطاب میں اس مسئلے پر بات کی، انہوں نے لیکویڈیٹی بڑھاتے ہوئے افغانستان کی معیشت کو ’آگے بڑھانے‘ کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معیشت کو واپس خطرات سے نکالنا ہوگا، جس کا مطلب ہے کہ منجمد اثاثوں کو بحال کرنے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے افغانستان کے مرکزی بینک کو واپس چلایا جاسکے‘۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں فوری طور پر نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے، سلامتی کونسل
انٹونیو گوتریس نے تجویز دی کی ایسے قواعد اور شرائط کو معطل کیا جائے جو نہ صرف افغان معیشت بلکہ اقوام متحدہ کے انسانوں کی جان بچانے کے آپریشن کو بھی روکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ان قواعد پر سنجیدگی سے نظر ثانی اشد ضرورت ہے، سرکاری شعبہ جات میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے چیف نے خبردار کیا کہ افغانستان کی کرنسی تنزلی کا شکار ہوسکتی ہے جس سے ملک کی جی ڈی پی کو ایک سال کے دوران 30 فیصد نقصان ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل 24 جنوری کو اوسلو میں ہونے والے اجلاس میں یورپین یونین، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، برطانیہ اور امریکا کے سفیروں نے بھی اس مسئلے کی نشاندہی کی تھی، اس موقع پر طالبان نمائندگان بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کو افغانستان کے منصوبوں میں پاکستان کے تعاون کی یقین دہانی
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کا کہنا تھا کہ ان کی حکومتیں ریلیف آپریشن کو توسیع دے رہی ہیں تاکہ سماجی خدمات کی تباہی کو روکا جاسکے اور افغانستان کی معیشت کی بحالی میں مدد کی جائے۔
اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ شرکا نے 'نقد کا بہاؤ بڑھانے اور افغان معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بینکاری کے شعبے کی مدد کی اہمیت کی نشاندہی کی‘۔