'قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عہدوں پر برقرار رکھنا گڈ گورننس کی نفی ہے'
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وزیر اعظم عمران خان کو متنبہ کیا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم اور اثاثہ ریکوری یونٹ (اے آر یو) کے چیئرمین شہزاد اکبر جیسے افراد کو اتھارٹی کے اہم عہدوں پر برقرار رکھنا گڈ گورننس کے سب سے بنیادی اصولوں کی نفی کرتا ہے اور اس معاملے میں وزیر اعظم کی ملی بھگت کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 26 اپریل 2021 کے مختصر فیصلے کے بعد ہفتہ کو جسٹس عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ کے جاری کردہ تفصیلی فیصلے کے ساتھ اپنے علیحدہ نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ وزیر قانون کی رضامندی سے اے آر یو کے چیئرمین کی غیر قانونی ہدایات پر جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ مسز سرینہ عیسیٰ کے کیس میں انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) 2001 کے سیکشن 216 کی صریح خلاف ورزی کی گئی اور اس طرح انہوں نے سرینہ عیسیٰ کے ٹیکس گوشواروں کی قانونی رازداری کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے اس 10 رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں 19 جون 2020 کے اکثریتی حکم کو کالعدم قرار دیا جس کے مطابق ٹیکس حکام کی طرف سے جسٹس عیسیٰ کی بیوی اور بچوں کے نام پر 3 غیر ملکی جائیدادوں کی تصدیق اور انکوائری ہونا تھی۔
آئی ٹی او کا سیکشن 216 رازداری کو یقینی بناتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ اگر محکمہ انکم ٹیکس کے افسران کے علاوہ دیگر افسران ٹیکس دہندگان کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرتے ہیں تو یہ ایک مجرمانہ جرم سمجھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کےخلاف نیب کو خط
حال ہی میں حکومت نے مبینہ طور پر اعلیٰ منتخب عہدیداروں کو جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کی ذاتی ٹیکس کی معلومات افشا کرنے پر کسی بھی مجرمانہ کارروائی سے بچانے کے لیے متنازع ضمنی مالیاتی بل 2021 کے ذریعے آئی ٹی او میں ترمیم کی ہے۔
یہ ترمیم سرکاری ملازمین اور اہلکاروں کو مستقبل میں کسی بھی اعلیٰ سطح کے سرکاری اہلکاروں، سرکاری ملازمین، ان کی شریک حیات اور بچوں یا بے نامی داروں کے خلاف فیصلے لینے کا اختیار دیتی ہے۔
اپنے نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ سپریم کورٹ کوئی ایسی ہدایات نہیں دے سکتی جو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جی سی) کو کسی خاص طریقے سے آگے بڑھنے یا اسے کسی بھی طریقے سے آگے بڑھنے سے باز رکھنے کے لیے ہو کیونکہ کونسل کی نظر میں یہ عدالتی کارروائی میں مداخلت کے مترادف ہوگا اور آئین کے آرٹیکل 211 کے واضح مینڈیٹ کی خلاف ورزی کرے گا، جو سپریم جوڈیشل کونسل کی کسی بھی کارروائی کو عدالتوں کے سامنے زیر بحث لانے سے منع کرتا ہے جب تک کہ عدالتی کارروائی جج کے دائرہ اختیار سے باہر، بدنیتی پر مبنی بغیر کسی دائرہ کار کے قرار پائے۔
مزید پڑھیں: شہزاد اکبر نے جسٹس عیسیٰ یا ان کے اہلخانہ کی نگرانی کی سختی سے تردید کردی
جسٹس یحییٰ آفریدی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو ٹیکس حکام کی رپورٹ پر غور کرنے کی ہدایات کونسل کی کارروائی میں عدالتی مداخلت کے مترادف ہے اور اس طرح آئین کے آرٹیکل 211 میں عدالتی مداخلت کے دیے گئے تصور کے تحت کونسل کی کارروائی کی خود مختاری اور بالادستی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ درخواست گزار جج (جسٹس عیسیٰ) کے کی انکوائری کرنے یا نہ یا نہ کرنے کے لیے کسی بھی ذریعہ سے موصول ہونے والی معلومات پر غور کرے یا انکار کردے، چاہے وہ ٹیکس حکام کی رپورٹ ہی کیوں نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس حکام کو جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے معاملات کی انکوائری اور آگے بڑھنے کے لیے طریقہ اور ٹائم فریم طے کرنے کی ہدایات آئی ٹی او کی خلاف ورزی اور غیر متعلق ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں عدالتی فیصلے سے مطمئن ہیں، شہزاد اکبر
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس آئین کے آرٹیکل 209 کے مطابق مبینہ بدانتظامی پر جسٹس فائز عیسیٰ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار ہے اور وہ آزاد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ٹی او کا سیکشن 216 ٹیکس فائلر کی معلومات کی رازداری کا حکم دیتا ہے اور کسی بھی خلاف ورزی پر مجرم کو سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جج نے مزید کہا کہ اس طرح کے نتائج موجودہ کیس میں غیر قانونی ہدایات دینے والے لوگوں کے خلاف سامنے آسکتے ہیں جس میں وزیر قانون کی رضامندی سے مرزا شہزاد اکبر، آئی ٹی او کے سیکشن 216 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی ہدایات پر عمل درآمد کرنے والے ٹیکس حکام اور وزیر اعظم بھی شامل ہیں جنہوں نے عدالت عظمیٰ کی طرف سے ان مجرمان کے غلط کاموں کی واضح اور متفقہ نشاندہی کے باوجود انہیں بااختیار عہدوں پر برقرار رکھا۔