اومیکرون کی ذیلی قسم اوریجنل سے ڈیڑھ گنا زیادہ متعدی قرار
سائنسدانوں کی جانب سے حال ہی میں دریافت ہونے والی اومیکرون ویرینٹ کی ذیلی قسم پر نظر رکھی جارہی ہے تاکہ تعین کیا جاسکے کہ اس سے مستقبل میں وبا کے پھیلاؤ پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اسے 'اسٹیلتھ اومیکرون' بھی کہا جارہا ہے اور طبی ماہرین نے اسے بی اے 2 کا نام دیا ہے۔
کورونا کی اس نئی قسم کے بارے میں ابتدائی ڈیٹا ڈنمارک کے ماہرین کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جہاں بی اے 2 کے باعث کووڈ کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ڈیٹا کے مطابق بی اے 2 اوریجنل اومیکرون یا بی اے 1 کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ متعدی ہے۔
اسٹیٹنز سیرم انسٹیٹوٹ (ایس ایس آئی) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ابتدائی تخمینے سے عندیہ ملا ہے کہ بی اے 2 اومیکرون کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ متعدی ہے۔
ایس ایس آئی کے ایک ماہر کے مطابق یہ قسم ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد اور بچوں میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ڈنمارک کے وزیر صحت میگنس ہیونیکے نے ایک پریس کانفرنس میں اس ابتدائی ڈیٹا کو اہم قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ابھی ایسے شواہد نہیں ملے کہ بی اے 2 زیادہ بیمار کرنے کا باعث بننے والی قسم ہے۔
بی اے 2 ڈنمارک میں جنوری کے دوسرے ہفتے میں تیزی سے پھیلی مگر فی الحال یہ دنیا بھر میں اومیکرون کی طرح برق رفتاری سے نہیں پھیلی۔
ایس ایس آئی کے مطابق اگر بی اے 2 کے متعدی ہونے کا تخمینہ درست ہوا تو ڈنمارک میں حالیہ لہر فروری تک برقرار رہ سکتی ہے۔
اومیکرون بی اے 2 دسمبر کے آخر میں ابھری تھی اور ڈنمارک کے بعد سنگاپور، برطانیہ، بھارت اور فلپائن تک پھیل ہوگئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس نئی قسم کے کیسز اب تک کم از کم 40 ممالک میں دریافت ہوچکے ہیں اور ایس ایس آئی نے بتایا کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ ڈنمارک میں زیادہ تیزی سے پھیلی۔
اگرچہ اوریجنل اومیکرون اور بی اے 2 میں بیشتر میوٹیشنز ایک جیسی ہیں مگر بی اے 2 میں 50 میوٹیشنز ہیں جو بی اے 1 سے زیادہ ہیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے یہ تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان میوٹیشنز نے بی اے 2 کی اینٹی باڈیز پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں، کس حد تک متعدی بنایا ہے یا وہ اومیکرون سے متاثر افراد کو دوبارہ بیمار کرنے کی کتنی صلاحٰت رکھتی ہے۔