بھارت: نئی دہلی میں خاتون کا اغوا کے بعد گینگ ریپ، 11 ملزمان گرفتار
بھارتی پولیس نے دارالحکومت نئی دہلی میں نوجوان شادی شدہ خاتون کو مبینہ اغوا کے بعد گینگ ریپ کا نشانہ بنانے اور گلیوں میں گھمانے والے 11 ملزمان کو گرفتار کرلیا۔
خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ بھارت میں ریپ کا تازہ واقعہ ہے، جس کی دہلی کمیشن برائے خواتین اور دہلی کے وزیراعلیٰ سمیت ملک بھر میں مذمت کی گئی اور واقعے کو 'شرم ناک' قرار دیا گیا۔
مزید پڑھیں: بھارت میں 50 سالہ خاتون گینگ ریپ کے بعد قتل
سوشل میڈیا پر زیر گردش فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ متاثرہ خاتون کا چہرے پر سیاہی پھینکی گئی ہے اور بال کاٹ دیے گئے ہیں جبکہ کئی خواتین انہیں دھکیل رہی ہیں، وہاں موجود افراد تالیاں بجا رہے ہیں اور اپنے فون سے ریکارڈ کر رہے ہیں تاہم اس فوٹیج کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جاسکی۔
پولیس کے ڈپٹی کمشنر آر ستھیاسندارام نے کہا کہ یہ واقعہ دہلی کے مشرقی علاقے کے ضلع شاہدرہ میں بدھ کو پیش آیا جو ہمسائیوں کے درمیان پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔
انہوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں لیکن میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ ملزمان کے ایک 16 سالہ رشتے دار نے 21 سالہ شادی شدہ خاتون کی جانب سے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار پر ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کردی تھی۔
آر ستھیاسندارام نے کہا کہ دو نابالغوں سمیت تمام 11 گرفتار ملزم ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے خواتین صف اول میں ہیں۔
متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ انہیں مذکورہ خاندان کے افراد نے اغوا کیا جس کے بعد کئی مردوں اور نابالغوں نے ریپ کا نشانہ بنایا، انڈے پھینکے اور اس کے بعد لاٹھیوں سے مارا اور باہر گھمایا۔
دہلی پولیس کے ایڈیشنل کمشنر چنمے بسوال نے بتایا کہ ہم دیگر ملزمان کی شناخت کے لیے ویڈیوز کا جائزہ لے رہیں جو ملوث تھے اور مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک خاتون کا ’ریپ‘
دو سالہ بچے کی متاثرہ والدہ کو واقعے کے بعد کونسلنگ کی خدمات فراہم کی جارہی ہیں اور رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ پولیس اسٹیششن سے بمشکل 50 میٹر کے فاصلے پر پیش آیا جس کو اس وقت کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔
بھارت میں ریپ کے قوانین میں دہلی میں 2012 کے گینگ ریپ کے بدترین واقعے کے بعد ترامیم کی گئیں لیکن دلخراش واقعات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور صرف 2020 میں 28 ہزار سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے۔
ماہرین کا خیال ہے کیسز ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوتی اور پولیس پر الزام ہے کہ وہ ان جرائم کو روکنے اور جنسی زیادتی کے کیسز عدالتوں میں لانے میں ناکام ہوگئی ہے۔
این سی بی آر کی 2017 کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت بھر میں خواتین کے خلاف تشدد، ریپ، ان پر تیزاب سے حملے، انہیں ہراساں کرنے سمیت دیگر صنفی تفریق کے واقعات میں اضافہ ہوگیا اور گزشتہ برس 2016 سے زیادہ جرائم ریکارڈ کیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سال 2017 میں مجموعی طور پر بھارت بھر میں خواتین کے خلاف جرائم و تشدد کے 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے زیادہ تر ’ریپ‘ کے کیسز تھے۔
بھارتی حکومت نے اکتوبر 2020 میں جاری اعداد و شمار میں بتایا تھا کہ اس وقت ملک میں ہر 16 ویں منٹ میں ایک خاتون کہیں نہ کہیں ’ریپ‘ کا شکار بن رہی ہے اور ملک کی کوئی ایسی ریاست نہیں جہاں خواتین محفوظ ہوں۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ’نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو' (این سی آر بی) کی جانب سے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد جاری کیے گئے سال 2019 کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ایک سال میں بھارت میں خواتین پر تشدد اور ریپ کے واقعات میں تقریبا 8 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ سال 2019 میں بھی دارالحکومت نئی دہلی میں خواتین پر تشدد اور ریپ کے سب سے زیادہ واقعات 12 ہزار 902 ریکارڈز کیے گئے۔
تاہم حیران کن طور پر ریاست مہارا شٹر کا دارالحکومت اور فلمی گڑھ سمجھے جانے والا ممبئی خواتین کے استحصال، ریپ اور تشدد کے واقعات میں 6 ہزار 519 رجسٹرڈ کیسز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
اگرچہ ریپ کیسز میں نئی دہلی سب سے آگے ہے تاہم خواتین کے خلاف تشدد، استحصال اور بعض جرائم کے کچھ واقعات میں ممبئی سرفہرست ہے۔