بلدیاتی قانون میں ترمیم پر مذاکرات طے پانے کے بعد جماعت اسلامی کا 27 روز سے جاری دھرنا ختم
سندھ بلدیاتی حکومت ترمیمی ایکٹ 2022 کے خلاف سندھ اسمبلی کے باہر تقریباً ایک ماہ سے جاری جماعت اسلامی کا دھرنا نتیجہ خیز ثابت ہوا اور پیپلز پارٹی نے قانون میں مزید تبدیلیوں پر اتفاق کرلیا۔
قانون میں ترمیم کرتے ہوئے صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی اور سیوریج کے نظام سمیت اہم انتظامی امور کا کنٹرول مقامی انتظامیہ کو واپس دیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ پیش رفت تب سامنے آئی جب وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ دھرنے کے مقام پر پہنچے اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے گفتگو کی اور دونوں فریقین کے درمیان ترمیم پر اتفاق کیا گیا، جس کے بعد امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔
اس موقع پر ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ’صحت اور تعلیم کے وہ محکمے جو مقامی حکومت سے لیے گئے تھے وہ انہیں واپس دیے جائیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی کا چیئرمین بھی ہوگا، صوبائی فنانس کمیشن بلدیاتی انتخابات کے ایک ماہ کے اندر قائم کردیا جائےگا، اسی طرح موٹر گاڑیوں کے ٹیکس میں مقامی انتظامیہ کو بھی حصہ دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: جماعت اسلامی کے دھرنے میں پیپلز پارٹی وفد کی آمد، بلدیاتی قانون میں ترمیم کی یقین دہانی
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اب تک سندھ حکومت کے تحت کام کرنے والے سولڈ اینڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کو مقامی انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ترمیم سے قبل جو تعلیمی ادارے مقامی انتظامیہ کے پاس تھے وہ بھی منتخب شہری حکومت کے حوالے کیے جائیں گے۔
جماعت اسلامی کا یوم تشکر کا اعلان
حکومت سندھ کے مطالبات ماننے کے بعد جماعت اسلامی نے دھرنا ختم کرتے ہوئے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا، فیس بک پر جماعت اسلامی کے پیچ پر جاری کی گئی ویڈیو میں مظاہرین سے خطاب میں حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ادارہ نورالحق میں مطالبات منظور ہونے کا جشن منایا جائے گا۔
جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے فیس بک پر جاری بیان کے مطابق بلدیاتی حکومت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا درج ذیل نکات پر ختم کیا گیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے صوبائی فنانس کمیشن قائم کیا جائے گا جو ایک ماہ کے اندر منتخب شہری حکومت کے حوالے کیا جائے گا، میئر ٹاؤن چیئرمین کمیشن کے اراکین ہوں گے۔
سندھ حکومت تمام تعلیمی ادارے، ہسپتال بلدیہ عظمیٰ کراچی کو واپس کرے گی۔
آکٹرائے اور موٹر وہیکل ٹیکس میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کو بھی حصہ دیا جائے گا۔
میئر کراچی چیئرمین واٹر بورڈ ہوں گے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کو خود مختار بنانے کے لیے سندھ حکومت مالی معاونت کرے گی۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں میئر اور چیئرمینز کو اختیارات دیے جائیں گے۔
سولڈ اینڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ میئر کراچی کے ماتحت ہوگا۔
کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں سندھ حکومت بلدیہ عظمیٰ کراچی کلی مدد کرے گی۔
یاد رہے 11 دسمبر کو اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود بھی سندھ اسمبلی میں بلدیاتی ترمیمی ایکٹ 2022 منظور کرلیا گیا تھا جس کے بعد یکم جنوری سے جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دے دیا تھا۔
اس موقع پر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن ہم ٹھوس اور نتیجہ خیز بات چیت چاہتے ہیں، ہم یہاں میڈیا کوریج اور شہ سرخیاں بنانے کے لیے موجود نہیں ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج سنجیدہ مطالبے پر ہے، حکومت سندھ کی جانب سے ہماری درخواستوں پر توجہ نہ دینے کے باعث ہم اس اقدام پر مجبور ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نئے بلدیاتی قانون کےخلاف جماعت اسلامی کی سندھ ہائیکورٹ میں درخواست
خیال رہے 10 جنوری کو صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے وفد نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی سے مشاورت کرکے بلدیاتی بل میں ترمیم کی یقین دہانی کروائی ہے۔
علاوہ ازیں جماعت اسلامی نے سندھ اسمبلی سے حال ہی میں منظور ہونے والے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ نعیم الرحمٰن نے اپنے وکیل کے ذریعے ایک درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیا قانون آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں چیف سیکریٹری سندھ اور بلدیاتی حکومت کے سیکریٹری کو فریق بنایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: گورنر سندھ کا بلدیاتی حکومت ترمیمی بل پر دستخط سے انکار
درخواست میں کہا گیا ہے کہ 11 دسمبر کو ایس ایل جی اے 2021 منظور کیا گیا تھا جس میں استدعا کی گئی کہ فریقین کو نافذ شدہ ترامیم کے تحت کوئی بھی کارروائی کرنے سے روکا جائے۔
تاہم سندھ حکومت کے بلدیاتی قانون میں ترمیم سے مطالبات منظور کرنے کے بعد جے آئی کی جانب سے 28 روز سے جاری دھرنا ختم کردیا گیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں