• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پاکستان میں پہلی مرتبہ 12ماہ تک پولیو کیس رپورٹ نہ ہونے کا ریکارڈ

شائع January 27, 2022
پاکستان میں پولیو وائرس کا آخری کیس 27 جنوری 2021 کو رپورٹ کیا گیا تھا—فوٹو/اے ایف پی
پاکستان میں پولیو وائرس کا آخری کیس 27 جنوری 2021 کو رپورٹ کیا گیا تھا—فوٹو/اے ایف پی

صوبہ خیبرپختونخوا میں پولیو ہیلتھ ورکر سدرہ حسین صبح سویرے ساتھی ورکر کے ہمراہ پولیو کے قطروں کی شیشیوں سے بھرا کولر لے کر نکلتی ہیں اور مردان کے مضافات میں گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس وقت پاکستان انسداد پولیو مہم کے تحت ایک اہم سنگ میل عبور کر چکا ہے۔

حکام کے مطابق پاکستان میں پولیو وائرس کا آخری کیس 27 جنوری 2021 کو رپورٹ ہوا تھا، پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک سال گزر گیا اور کوئی نیا پولیو کیس سامنے نہیں آیا۔

کسی بھی ملک کو پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے لگاتار تین سال تک پولیو سے پاک ہونا ضروری ہے، لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے 12 ماہ بھی ایک طویل وقت ہے جہاں ویکسینیشن ٹیمیں بھی غیرمحفوظ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یونیسیف کو پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی اُمید

پڑوسی ملک افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور ان کے دہشت گرد اکثر پولیو ٹیموں کو نشانہ بناتے ہیں۔

بلند دیواروں کے درمیان کھڑی سدرہ حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ زندگی یا موت خدا کے ہاتھ میں ہے، ہمیں بہرحال آنا ہے، ہم صرف اس لیے پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ یہ مشکل کام ہے۔

’خطرہ اب بھی باقی ہے‘

نائیجیریا نے 2020 میں پولیو کا باضابطہ طور پر خاتمہ کر دیا تھا، جس کے بعد دنیا میں اب پاکستان اور افغانستان ہی وہ واحد ملک ہیں جہاں اس بیماری کا خطرہ اب بھی باقی ہے۔

مزید پڑھیں: پولیو ویکسین کی کہانی: اس میں ایسا کیا ہے جو ہر سال 30 لاکھ زندگیاں بچاتی ہے

فضلے اور تھوک کے ذریعے پھیلنے والے اس وائرس کے ان دونوں پڑوسی ممالک میں پنپنے کی باقاعدہ تاریخ ہے۔

2014 میں تحریک طالبان پاکستان کو بڑی حد تک بے دخل کر دیا گیا تھا اور انہیں افغانستان واپس جانے پر مجبور کیا گیا تھا لیکن پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق 6 سال مسلسل تنزلی کے برعکس گزشتہ سال مجموعی طور پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں 56 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔

اگست میں افغان طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد سب سے زیادہ حملے ہوئے ہیں۔

پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کے شہید ہونے کے واقعات عام ہیں، رواں ہفتے مردان سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع شہر کوہاٹ میں ایک کانسٹیبل کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 2012 سے اب تک 70 پولیو ورکرز دہشت گرد حملوں میں مارے جا چکے ہیں، زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا میں رپورٹ ہوئے۔

مردان کے ڈپٹی کمشنر حبیب اللہ عارف نے کہا کہ پولیو ٹیمیں بہت آسان ہدف ہیں، پولیو کے خلاف اس جنگ میں سیکیورٹی کا خطرہ مسلسل جڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا صرف ایک نصب العین ہے کہ ہم پولیو اور عسکریت پسندی دونوں کو شکست دیں گے۔

ویکسین سے متعلق شکوک و شبہات

انسداد پولیو مہم 1994 سے چلائی جا رہی ہے، جس میں تقریباً 2 لاکھ 60 ہزار پولیو ورکرز اپنے علاقوں میں پولیو کے ٹیکے لگانے کی سلسلہ وار مہم انجام دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان اگر کووڈ 19 سے نمٹ سکتا ہے تو پولیو سے کیوں نہیں، آئی ایم بی

لیکن پولیو ٹیموں کو اکثر شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔

پولیو کے خاتمے کے قومی پروگرام کے سربراہ شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں میں انسداد پولیو مہم کو مغربی سازش تصور کیا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مختلف تھیوریز ہیں، مثلاً یہ کہ پولیو ٹیمیں جاسوس ہیں، ویکسین بانجھ پن کا باعث بنتی ہیں، یا سور کی چربی پر مشتمل ہے جو اسلام میں حرام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو ویکسین پلانے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں کمی کے باوجود چیلنج برقرار

ان سازشی تھیوریوں کو 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے مزید تقویت ملی جن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی مخبری امریکا کو ایک پولیو ویکسین مہم چلانے والے ڈاکٹر نے کی تھی۔

شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے، جس کا تعلق سماجی و اقتصادی اور سیاسی حالات سے ہے، افغانستان کی غیرمحفوظ سرحد سے تحریک طالبان پاکستان کی آمد و رفت کا خطرہ پولیو کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیو وائرس کے لیے پاکستان اور افغانستان ایک ہی ملک تھے۔

مردان میں روز صبح دو خواتین اور ایک مسلح پولیس گارڈ پر مشتمل 10 ٹیمیں شہر کے مضافاتی علاقوں میں پھیل جاتی ہیں، یہ ٹیمیں چاک سے ان گھروں پر تاریخیں درج کرتی ہیں اور بچوں کی انگلیوں پر سیاہی لگاتی ہیں جن کو پہلے سے ٹیکے لگائے جاچکے ہوں۔

پیر کو ان ٹیموں کو پولیو کی مزید درجنوں خوراکیں پلائی گئیں۔

پولیو ورکر زیب النسا نے کہا کہ ہمارے ذہن میں خوف ہے لیکن ہمیں اپنی قوم کی خدمت کے لیے سرگرم رہنا ہوگا، ہمیں اس بیماری کو ختم کرنا ہو گا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024