• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کوئی معاشرہ قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، وزیراعظم

شائع January 27, 2022
وزیراعظم کا تقریب سے خطاب—تصویر: عمران خان فیس بک
وزیراعظم کا تقریب سے خطاب—تصویر: عمران خان فیس بک

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا، آج تک کسی معاشرے نے لیگل سسٹم کے بغیر ترقی نہیں کی۔

اسلام آباد میں فوجداری قانون میں اصلاحات سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ باہر ممالک کے لیگل سسٹم ٹیکنالوجی کی مدد سے بہتر ہوتے رہے جبکہ پاکستان کا سسٹم انگریز کے جانے کے بعد سے نیچے جاتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ طاقتور اور عوام کے لیے علیحدہ پاکستان بن گیا، جسٹس سسٹم صرف طاقتور کو فائدہ پہنچانے لگا اور عام آدمی جیلوں میں بھرے جاتے رہے، کئی قیدیوں کا جرم صرف ان کی غربت ہے، تعلیم اور انصاف کا سسٹم شروع سے خراب ہوتا رہا، پرائیویٹ انگریزی اسکول اوپر جاتے رہے اور گورنمنٹ اسکول زوال کا شکار ہوگئے، اسی طرح سرکاری ہسپتالوں کا حال بھی خراب ہوتا گیا اور پرائیوٹ ہسپتال آتے گئے، امیر ملک سے باہر جاکر علاج کرانے لگے۔

یہ بھی پڑھیں:کمزور اور طاقتور کیلئے الگ، الگ قانون ہونے سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ آج جو یہ سسٹم متارف کروایا ہے اس کا مقصد عام آدمی تک انصاف کی رسائی ہے، مدینے کی ریاست کا تصور صرف جمعے کے خطبوں تک محدود ہوگیا ہے، اس سے بہترین ماڈل دنیا کی تاریخ میں کوئی نہیں جس نے انقلاب برپا کیا، اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل مدینہ کی ریاست ہی ہے،

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہلیتھ انشورنس جیسا قدم کئی خوشحال ممالک میں بھی موجود نہیں ہے، مفت انشورنس ہر خاندان کو دینا فلاحی رہاست کی جانب اہم قدم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے ابتدائی سالوں میں خوشحالی نہیں تھی، لیکن قانون کی بالادستی سب سے پہلے قائم کی گئی، انصاف کی عدم فراہمی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستان ہمارا اثاثہ ہیں جس کی ترسیلات زر سے پاکستان چل رہا ہے، لیکن وہ پاکستان میں انویسٹ کرنے کا تیار نہیں۔

مزید پڑھیں:قانون کی عمل داری فوری چیلنج ہے، وزیر اعظم

انہوں نے مزید کہا کہ میں خود اورسیز پاکستانی رہ چکا ہوں اس لیے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ رول آف لا نہ ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان میں انویسٹ کرنے کو تیار نہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ 90 لاکھ اوورسیز پاکستان میں انویسٹ کرنا شروع کردیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا، ریکوڈک سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا جرمانہ ہوا، اگر یہ کیس ہماری عدالتوں میں ہی حل کیا جاتا تو اتنا بڑا نقصان نہ ہوتا جس کی ہم نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وکلا سے اپیل ہے کہ کرمنل ریفارمز کو امپلیمنٹ کرنا کا کام اب اپ کا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ رول آف لا انڈیکس میں سب سے اوپر ہے، ہمارے ناردن ایریاز سوئزرلیند سے بہتر ہے لیکن رول آف لا نہ ہونے کی وجہ سے ،100 بلین دالر بھی ہم کما نہیں پاتے ٹورازم سے، سوئزلینڈ میں چپڑاسیوں کے اکاونٹ میں اربوں روپے نہیں نکلتے، ان کا معاشرہ ہمارے لیے مثال ہے، مدینہ کی ریاست میں بھی قانوں کی نظر میں سب برابر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی عوام کی معاشی بہبود یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت

انہوں نے مزید کہا کہ طاقتور کا قانون کے سامنے لانا سب سے بڑا جہاد ہے، آپ نے ریفارمز میں ٹیکنالوجی کا اتعمال کرکہ غیرمعمولی کام کیا ہے، ای وی ایم کا مقصد بھی یہی ہے، عام آدمی کو ان ریفارمز کی اشد ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سوئزلینڈ میں وزرا کے چپڑاسیوں کے اکاونٹ میں اربوں روپے نہیں نکلتے، وہاں کوئی قبضہ گروپ نہیں ہے، وہاں لندن بھاگنے والوں پر کوئی پھول نہیں پھینکتا، وہاں سڑک پر آپ کاغذ بھی پھینکیں تو آپ کو ٹوکا جائےگا، ان کا معاشرہ ہمارے لیے مثال ہے، یہی اصول حضرت محمدﷺ نے مدینہ کی ریاست میں بھی قائم کیا تھا، جہاں قانوں کی نظر میں سب برابر تھے، حتیٰ کہ خلیفہ وقت سے یہودی بھی کیس جیت جاتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا جہاد طاقتور کو قانون کے سامنے لانا ہے، آپ نے کرمنلز ریفارمز میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے غیرمعمولی کام کیا ہے،کرکٹ میں بھی میں نے نیوٹرل امپائر کے لیے 6 سال بڑی مہم چلائی جس پر مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن میں نے اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بھی بات کی اور اس پر بھی مجھ پر تنقید ہوئی، آج کرکٹ میں نیوٹرل امپائر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے چیٹنگ ختم ہوگئی ہے، سب اپنی ہار جیت تسلیم کرلیتے ہیں، ای وی ایم متعارف کروانے کا مقصد بھی یہی ہے۔

قوانین میں ترامیم لیگل سسٹم کو بدل کر رکھ دیں گی، فروغ نسیم

قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ آج پاکستان کے لیے ایک غیر معمعولی دن ہے، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے لیے بھی آج کا دن انتہائی اہم ہے۔

انہوںے کہا کہ ہمارا پینل کوڈ 1860 کا ہے، کرمنل پراسیجر کوڈ بھی 1898 کا ہے، انگلینڈ میں کرمنل ریفارمز کے لیے 15 سال لگے تھے، آپ نے پچھلے سال مارچ میں مجھے یہ ذمہ داری دی، جون میں اس کا ڈرافٹ میں نے تیار کرکے آپ کو دیا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے مدد سے اس میں صرف 7 مہینے لگے جوکہ وزیراعظم کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

انہوں نےمزید کہا کہ اس تمام عمل میں شاہ محمود قریشی، اعجاز شاہ، اعظم سواتی، شبلی فراز ، فرخ حبیب، زرتاج گل اور علی محمد خان نے بھی اپنی تجاوز اور ترامیم سے بڑا تعاون کیا۔

مزید پڑھیں:وزارت قانون کی مختلف قوانین میں 869 ترامیم کی تجویز

وزیر قانون نے کہا آج ان کرمنل ریفارمز سے ہم سول پراسیجر کورٹ، پاکستان پینل کوڈ، قانون شہادت اور ایک انڈیپینڈینٹ پروسکیوشن سروس متعارف کروارہے ہیں، فرانزیک لیبارٹری بھی بنارہے ہیں، جیل قوانین بھی اس میں شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں مجموعی طور پر 7 سو کے قریب ترامیم شامل ہیں، جو لیگل سسٹم کو بالکل بدل کر رکھ دیں گی، ہماری 50 فیصد آبادی خواتین کی ہے، ان خواتین کے لیے انفورسمنٹ آف پراپرٹی رائٹس کا اصول بھی متعارف کروا چکے ہیں جس کے تحت مقدمات اور سنوائی بھی شروع ہوچکی ہیں جنہیں تین تین مہینوں میں نمٹایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے لیے مختص بجٹ پولیس اسٹیشن نہیں پہنچتا تھا بلکہ اوپر والے کھا جاتے تھے، ہم نے ریفارمز کے ذریعے یہ لازمی کردیا ہے کہ بجٹ ٹرکل ڈاؤن ہوکر پولیس اسٹیشن جائے گا اور اگر ان کو نہیں پہنچے گا تو پھر اس کا آڈٹ کیا جائے گا، اور قانونی چارہ جوئی کے بعد ذمہ داران کو سزا ملے گی، اس سے پولیس کے پاس پیسے نہ ہونے کا بہانہ ختم ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا ان ریفارمز کے مطابق آئندہ ایس ایچ او کے لیے بی اے کی ڈگری کے حامل افسران کو ترجیح دی جائے گی، جن پولیس اسٹیشنز پر دباؤ زیادہ ہے وہاں اے ایس پی کو تعینات کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم قانونی اصلاحات کا مؤثر نفاذ نہ ہونے پر پریشان ہیں، اٹارنی جنرل

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ سیکشن 220 اے کا ایک بڑا مسئلہ تھا جس میں ایف آئی آر درج نہ کیے جانے پر ڈسٹرکٹ جج کے پاس جانے کا اختیار تھا لیکن اس کے نیتجے میں سیشن ججز کے پاس مقدمات کے ڈھیر لگ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ عدالتوں پر سے دباؤ کم کرنے کے لیے ہم یہ ترمیم لائے ہیں کہ اگر ایس ایچ او ایف آئی آر درج نہیں کرتا تو عوام ایس پی کے پاس جا سکتے ہیں، اگر ایس پی بھی انکار کرے تو پھر عوام 220 اے کا سہارا لے سکتے ہیں کیونکہ ہم نے وکلا کی خواہش کے مطابق 220 اے معطل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا فارنزیک کے لیے لیبارٹریز اور بجٹ کی بھی منظوری دے دی ہے، جدید ٹیکنالوجی بھی آئے گی جو انصاف کے نظام کو اوپر لے جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ایک انڈیپینڈنٹ پروسکیوشن سروس بھی متعارف کروا رہے ہیں جس سے نظام پر دباؤ کم ہوگا، جاپان میں انڈپینڈٹ پروسکیوشن سروس موجود ہے جو کنوکشن کی تصدیق کے بعد ہی کیس کو آگے بھیجتی ہے اسی لیے وہاں کنوکشن ریٹ 99 فیصد ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ان ریفارمز میں ہم نے کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے 9 مہینے کی حد طے کردی ہے، 9 مہینے سے تجاوز ہونے پر ٹرائل جج کو وضاحت دینی پڑے گی، اگر وضاحت تسلی بخش نہ ہوئی تو ہائی کورٹ اس کے خلاف ایکشن لے گی، اس پر تنقید کرنے والے اپوزیشن لیڈران کو کو سمجھنا چاہیے کہ اس شق پر تنقید کا مطلب یہی ہوگا کہ آپ نہیں چاہتے کے جلد فیصلے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ مجھے دنیا بھر سے کالیں کرتے ہیں، اور ان ریفارمز کے لیے میرا اور آپ کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ریفارمز کو متعارف کروانے کے بعد اب اگلا مرحلہ اس پر عملدرامد کرنا ہے جو ایک دن میں ممکن نہیں، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل میں پاکستان کا 140 واں نمبر رول آف لا کی وجہ سے آیا، قانون پر عملدرامد وزیراعظم اور وزیرقانون نے نہیں بلکہ جوڈیشری اور وکلا نےکرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پر عمدرامد کی ذمہ داری پولیس، انویسٹیگیٹرز اور عوام کی بھی ہے، انہوں بھی اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کا پتا ہونا چاہیے،

وزیر قانون نے کہا کہ ہمارے سول ریفارمز کی پزیرائی کرنے پر میں جسٹس اطہرمن اللہ کی بھی تعریف کروں گا۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری، پروویشنل جوڈیشری اور ہائی کورٹ سمیت سب سے میری استدعا ہے کہ سول ریفارمز پر عملدرامد یقینی بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ریفارمز کے تحت عدالت کے ذریعے مفرور ملزمان کے بینک اکاونٹز، شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور دیگر چیزیں فریز کرنا ممکن ہوگا، پاکستان کرمنل لا کے مطابق ایسے جرم کی سزا بھی دی جاسکتی ہے جو پاکستان سے باہر ہوا ہو، اس لیے اگر کوئی مفرور ملزم پاکستان سے لندن یا سعودی عرب بھاگا ہوا ہو تو اس کے بینک اکاونٹ بھی فریز کیے جاسکیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024