• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

جب امریکی صدر نے صدر ایوب سے کہا ’آپ لوگ گھاس کی پچ پر کرکٹ کیوں نہیں کھیلتے؟‘

شائع January 27, 2022 اپ ڈیٹ March 2, 2022

قیامِ پاکستان کے وقت جو صوبے مغربی پاکستان کا حصہ بنے وہاں کرکٹ کے کھیل کی مقبویت برطانوی دور سے ہی تھی۔ کراچی اور لاہور کھیلوں کے مرکز تھے۔ کراچی کی طرح اکثر علاقوں میں کرکٹ میٹنگ (Matting) کی پچ پر ہی کھیلی جاتی تھی، صرف باغِ جناح لاہور میں یا ڈرنگ اسٹیڈیم بہاولپور جہاں انٹرنیشنل میچ کھیلے جاتے تھے، وہاں گھاس کی پچ موجود تھی۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی لاہور اور بہاولپور میں 1955ء میں ہونے والا ٹیسٹ میچ گھاس پر کھیلا گیا لیکن کراچی اور دیگر مقامات پر میٹنگ کی پچ ہی ہوتی تھی یعنی زمین کو رول کرکے اس پر پٹ سن کی بنی 22 گز کی میٹنگ بچھا کے کیلیں ٹھوک دی جاتی تھیں۔

میٹنگ 22 گز طویل پٹ سن ہوتا ہے جسے زمین پر کیلوں سے ٹھوک دیا جاتا ہے—فوٹو: اے پی
میٹنگ 22 گز طویل پٹ سن ہوتا ہے جسے زمین پر کیلوں سے ٹھوک دیا جاتا ہے—فوٹو: اے پی

میں نے اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بھارت کے خلاف 1955ء میں دیکھا تھا۔ وہ میچ بھی میٹنگ پچ پر ہی کھیلا گیا تھا۔ اسی طرح ایم سی سی کی ٹیم جب پاکستان آئی تو ان کے میچ بھی کراچی جم خانہ میں میٹنگ پر ہی کھیلے گئے تھے۔ میں نے جب 57ء-1956ء میں قائدِاعظم ٹرافی کا اپنا پہلا میچ حیدرآباد میں کھیلا تو وہ بھی میٹنگ پچ پر ہی کھیلا، بلکہ یوں کہیے کہ پاکستان کے قیام کے تقریباً 14 سال بعد تک بھی یہی سلسلہ رہا۔

کرکٹ کا آغاز انگلینڈ سے ہوا اور وہاں شروع سے ہی گھاس کی پچ کا استعمال کیا گیا لیکن ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا، بھارت اور جنوبی افریقہ میں بھی کافی حد تک میٹنگ پچ کا استعمال کیا گیا۔ پاکستان کی بات کرتے ہوئے میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس ملک کو میٹنگ پچ سے نجات کسی اور نے نہیں بلکہ امریکی صدر ڈیوائٹ ڈی آئزن ہاور نے دلوائی جن کے اپنے ملک میں کبھی کرکٹ کا کھیل مقبول نہیں رہا۔

ہوا یوں کہ 1959ء میں وہ پاکستان کے دورے پر آئے اور کراچی کی شاہراہوں پر سیر کے علاوہ اس وقت کے صدرِ پاکستان ایوب خان انہیں نیشنل اسٹیڈیم کراچی بھی لے گئے جہاں آسٹریلوی ٹیم پاکستان کے خلاف میچ کھیل رہی تھی۔ اس میچ میں پاکستان کی قیادت فضل محمود کررہے تھے اور آسٹریلوی ٹیم کی قیادت رچی بینو کررہے تھے۔

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 1959ء میں ڈھاکہ میں میٹنگ پچ پر کھیلا جانے والا میچ—تصویر: اے پی
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان 1959ء میں ڈھاکہ میں میٹنگ پچ پر کھیلا جانے والا میچ—تصویر: اے پی

تیسرے دن کے کھیل کے دوران امریکی صدر جب گراؤنڈ میں تشریف لائے تو انہیں ایک شامیانے کے نیچے دوسرے مہمانوں کے ساتھ بٹھا دیا گیا اور پھر پاکستانی اور آسٹریلوی ٹیم سے ان کا تعارف کروایا گیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے انہیں اپنی ٹیم کا بلیزر پیش کیا جبکہ آسٹریلوی کپتان نے انہیں اپنی ٹیم کی ٹیسٹ کیپ پیش کی۔ میچ کا آغاز ہوا تو امریکی صدر نے صدر ایوب سے کہا کہ ’میں کرکٹ نہیں جانتا لیکن میں دوسری عالمی جنگ میں کمانڈر رہا ہوں اور میرا ہیڈکوراٹر لندن میں تھا۔ کرکٹ کے بارے میں میری ناقص معلومات یہ ہے کہ یہ گھاس کی پچ پر کھیلی جاتی ہے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ اس میدان میں ایک مصنوعی پچ بچھی ہوئی ہے۔ آپ لوگ گھاس کی پچ پر کرکٹ کیوں نہیں کھیلتے؟‘

یہ سن کر صدر ایوب کو بڑی خفت محسوس ہوئی کہ ایک امریکی صدر نے جس کے اپنے ملک میں کرکٹ نہیں کھیلی جاتی اس نے پاکستانی صدر سے یہ بات کہی۔ ایوب خان نے کہا کہ یہاں بارش کم ہوتی ہے اس وجہ گھاس کا خیال رکھنا مشکل ہوتا ہے تاہم دل ہی دل میں وہ بہت شرمندہ ہورہے تھے۔ انہوں نے بورڈ کے سیکریٹری چیما صاحب کو کہا کہ امریکی صدر نے مجھے بہت شرمندہ کیا ہے اس وجہ سے پاکستان میں آئندہ گھاس یعنی ٹرف پچ پر ہی میچ کروائے جائیں گے۔

امریکی صدر ڈیوائٹ آئزن ہاور نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستانی ٹیم سے ملتے ہوئے—تصویر: وائٹ اسٹار آرکائیوز
امریکی صدر ڈیوائٹ آئزن ہاور نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستانی ٹیم سے ملتے ہوئے—تصویر: وائٹ اسٹار آرکائیوز

امریکی صدر آسٹریلوی ٹیم سے ملتے ہوئے
امریکی صدر آسٹریلوی ٹیم سے ملتے ہوئے

وہ دن ہے اور آج کا دن کہ پاکستان میں تمام ڈومیسٹک اور بین الاقوامی میچ گھاس کی پچ پر ہی کھیلے جاتے ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں تربیت یافتہ گراؤنڈز مین نہیں ہیں اس وجہ سے کبھی پچ سست بنتی ہے اور کبھی تیز۔ پاکستان نے اس سلسلے میں کوتاہی کا بھی ثبوت دیا ہے اور پی سی بی پچوں اور گراؤنڈ کی دیکھ بھال صحیح معنوں میں نہیں کرسکا ہے۔ اب تک بھی صورتحال ایسی ہی ہے کہ پچ تو کیا یہاں موجود بین الاقوامی اسٹیڈیمز میں بھی بین الاقوامی معیار کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

جب بھی کوئی نیا کرکٹ بورڈ تشکیل پاتا ہے تو عہدے داران وعدے تو بہت کرتے ہیں لیکن کام بہت ہی کم کرتے ہیں۔ اب پاکستان کے سابق کھلاڑی رمیز راجہ پی سی بی کے چیئرمین ہیں اور انہوں نے پاکستان میں ’ڈراپ اِن‘ پچوں کے نئے خیال کو پیش کیا ہے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں ان کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈراپ اِن پچ کی تاریخ اور اس کے مسائل

یہاں ڈراپ اِن پچ کی تاریخ کا بھی ذکر کیے دیتے ہیں۔ 1977ء میں جب آسٹریلوی ٹی وی چینل ’چینل 9‘ کے مالک کیری پیکر کو آسٹریلیا میں میچ دکھانے کے حقوق نہیں ملے تو انہوں نے غصے میں آسٹریلوی کرکٹ کو سبق سکھانے کی ٹھانی اور دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو اپنی ورلڈ سیرز کرکٹ میں شامل کرلیا۔

اس سخاوت پر انہیں کورٹ کچہری کے چکر بھی لگانے پڑے لیکن وہ ڈٹے رہے اور ورلڈ سیریز کرکٹ کے میچ کروانے کی ٹھان لی۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے انہیں ٹیسٹ میچ گراؤنڈ دینے سے انکار کردیا تو انہوں نے رگبی گراؤنڈ کے باہر مصنوعی پچ تیار کروائی اور اسے ایک کرین کی مدد سے میدان کے اندر نصب کروادیا یوں ڈراپ اِن پچ کا آغاز ہوا۔

ڈراپ اِن پچ—تصویر: ٹوئٹر
ڈراپ اِن پچ—تصویر: ٹوئٹر

کرکٹ بورڈ سے کیری پیکر کے اختلافات دُور ہونے پر دیگر ممالک نے بھی ڈراپ اِن پچوں کو آزمایا کیونکہ ان پر ہر موسم میں کھیلا جاسکتا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیاری اور نگہداشت کے لیے ایک پروفیشنل عملہ درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی ایک بڑی کرین کی ضرورت ہوتی ہے جو میدان کے باہر تیار ہونے والی پچ کو اٹھا کر میدان میں نصب کرسکے۔ اس پر اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں اور پاکستان جیسا ملک جو میدانوں کی بھی درست دیکھ بھال نہیں کرسکتا وہ ڈراپ اِن پچوں کی دیکھ بھال کیسے کرسکے گا؟

رمیز راجہ نے کراچی آکر نیا ناظم آباد کے مالک اور بزنس مین عارف حبیب صاحب کے ساتھ ڈراپ اِن پچوں کے حوالے سے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت عارف حبیب 37 کروڑ روپے کی لاگت سے ڈراپ اِن پچ اپنے گراؤنڈ میں تیار کروا کر اسے کراچی کے اسٹیڈیم میں نصب کروائیں گے۔

میں نہیں سمجھتا کہ یہ خیال پاکستان کے لیے عملی طور پر درست ہے۔ اس قسم کی پچ کی دیکھ بھال کے لیے کم از کم 20 افراد کا عملہ اور کرین درکار ہوتی ہے اور یہ کروڑوں روپے کا خرچہ ہے۔ پی سی بی کا یہ خیال میری سمجھ سے باہر ہے اور میرے مطابق یہ خیال صرف خیال ہی رہ جائے گا۔

قمر احمد

قمر احمد بطور صحافی 450 ٹیسٹ میچ کور کر چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ 740 ون ڈے میچز اور 12 میں سے 9 آئی سی سی ورلڈ کپ کور کرچکے ہیں۔ آپ نے 32 سال تک بی بی سی انگریزی، اردو اور ہندی سروس کے لیے کرکٹ رپورٹنگ کی ہے۔علاوہ ازیں آپ رائٹرز، اے ایف پی، دی ٹائمز، دی ڈیلی ٹیلی گراف لندن اور دی گارجئین جیسے اداروں سمیت وسڈن الماناک دی بائبل آف دی گیم کے لیے بھی رپورٹنگ کرچکے ہیں۔ آپ کی خود نوشت سوانح حیات ’فار مور دین اے گیم‘ کےعنوان سے شائع ہوئی ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024