• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

کچی آبادی کی زمین دولت بنانے کیلئے استعمال نہیں کی جاسکتی، سپریم کورٹ

شائع January 21, 2022
فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کے 13 اگست 2018 کے حکم کے خلاف سید جمیل احمد کی اپیل پر دیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کے 13 اگست 2018 کے حکم کے خلاف سید جمیل احمد کی اپیل پر دیا گیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے ایک کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ کچی آبادیوں کی زمین کو ذاتی دولت بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ کسی طرح زمین پر قبضہ کر کے اسے کرائے پر دے دیا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ عوامی پالیسی کے خلاف ہوگا کہ بےگھروں کا استحصال کر کے مالک کے خرچ پر دولت بنائی جائے اور پھر ایسی زمین پر قبضہ کرکے مالکانہ حقوق کا دعویٰ کیا جائے۔

یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کے 13 اگست 2018 کے حکم کے خلاف سید جمیل احمد کی اپیل پر دیا، جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی۔

جمیل احمد کو کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے 31 اگست 1989 کو کراچی میں 204.06 مربع گز کا پلاٹ لیز پر دیا تھا۔

اس پلاٹ کے علاوہ اپیل کنندہ کو 40.56 مربع گز زمین کا ایک ٹکرا لیز پر دیا جانا تھا لیکن محمد سلام کو یہ زمین پہلے ہی 21 مئی 1985 کو دی جاچکی تھی۔

جمیل احمد کی نمائندگی کرتے ہوئے شہاب سرکی نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ایک اپیل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور مقدمے کو خارج کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو حد کی بنیاد پر بحال کر دیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اپیل کنندہ نے 1991 میں دائر کردہ ایک مقدمے میں بھی یہی رعایت مانگی تھی، لیکن اسے استغاثہ نہ ہونے کی وجہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 50 لاکھ گھر بنتے رہیں گے تب تک کچی آبادیوں کیلئے کچھ کرنا ہوگا،چیف جسٹس

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ مقدمہ 1995 میں دائر کیا گیا تھا اور اسے خارج کر دیا گیا تھا کیونکہ اس میں وقت کی حد تھی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وکیل، عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے تھے کہ اس مقدمے میں 1985 میں دی گئی لیز کو ڈکلیئر اور منسوخی کرنے کا مطالبہ 10 سال بعد کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ مقدمہ واضح طور پر وقتی تھا اور ٹرائل کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے درست تھے۔

تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آبزرویشن تھی کہ اپیل کنندہ کے پاس خصوصی ریلیف ایکٹ 1877 کے سیکشن 42 کے تحت کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی اور اس کا وہ مقدمہ قابل سماعت نہیں تھا جس میں محمد سلام کے قبضے میں موجود پلاٹ کی ملکیت کے بارے میں فیصلہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

خصوصی ریلیف ایکٹ کے سیکشن 42 کے مطابق اس شق کو صرف اسی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے جب کسی جائیداد میں مدعی کا کوئی حق، استحقاق یا مفاد فراہم نہ کیا جارہا ہو۔

مزید پڑھیں: کراچی روشنیوں کا شہر نہیں رہا، بڑی کچی آبادی نظر آتا ہے، سپریم کورٹ

فیصلے میں کہا گیا کہ اپیل خارج کر دی گئی ہے۔

اپیل کنندہ ایسے پلاٹ کا حقدار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا جو اس کے قبضے میں نہیں تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کے ایم سی کے کچی آبادی کے ڈائریکٹوریٹ کی طرف سے محمد سلام اور اپیل کنندہ کو دی گئی لیز کا عنوان ’غیر مجاز قبضے کو ریگولرائز کر کے پلاٹ کے لیے لیز‘ تھا۔

بغیر ملکیت ایک اعلان شدہ کچی آبادی کی زمین کا غیر مجاز قبضہ رکھنے والے افراد کو کے ایم سی کی طرف سے اس زمین کے مالکانہ حقوق دیے گئے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اپیل کنندہ کے قبضے میں وہ زمین نہیں تھی جس کی لیز محمد سلام کو دی گئی تھی، اپیل کنندہ نے استدلال کیا تھا کہ چونکہ محمد سلام اس کا کرایہ دار تھا، اس لیے اسے لیز پر نہیں دیا جانا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کے ایم سی کو گجر نالے کے ساتھ لیز مکانات منہدم نہ کرنے کی ہدایت

عدالت عظمیٰ کے مطابق بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ محمد سلام اپیل کنندہ کا کرایہ دار تھا، تب بھی اپیل کنندہ ایک اعلان شدہ کچی آبادی میں واقع زمین کے سلسلے میں مبینہ کرایہ داری کی بنیاد پر لیز ہولڈ کے حقوق کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

کچی آبادیوں کو باقاعدہ بنانے کے قانون کا مقصد بے زمینوں کو رہائش فراہم کرنا ہے، لیکن اپیل کنندہ جمیل احمد نے اس زمین پر اپنا دعویٰ کیا جو کہ اس کی ملکیت نہیں تھی اور نہ ہی اس کے قبضے میں تھی۔

فیصلے کے مطابق کچی آبادیوں کی زمین کو کسی طرح اپنے قبضے میں لے کر اور پھر اسے کسی کرایہ دار کو دے کر ذاتی دولت میں اضافے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024