ملک کے 90 فیصد سے زائد طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں کمزور
ایک سروے کے مطابق پاکستان کے پرائمری اور لوئر سیکنڈری اسکولوں میں زیر تعلیم 90 فیصد سے زائد طلبہ ریاضی اور سائنس جیسے اہم مضامین کا بہت کم فہم رکھتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ آئی ای ڈی پاکستان کے تحت کیے گئے سروے میں ملک بھر کے 153 سرکاری اور نجی اسکولوں میں زیرتعلیم پانچویں، چھٹی اور آٹھویں جماعت کے 15ہزار سے زائد طلبہ نے معمول کی تعلیمی سرگرمی کے طور پر ریاضی اور سائنس کے ٹیسٹ میں حصہ لیا۔
سروے میں تمام ٹیسٹ پاکستان کے نصاب کے مطابق ترتیب دیے گئے تھے اور گزشتہ مطالعوں کے دوران پاکستان میں ان کے استعمال کی توثیق بھی کی جا چکی ہے۔
ریاضی کے ٹیسٹ میں طلبہ و طالبات کا اوسط نتیجہ 100میں سے 27 نمبر رہا جبکہ سائنس میں اوسط نتیجہ 100 میں سے 34 نمبر رہا، صرف ایک فیصد طلبہ نے دونوں مضامین میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 80 فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے۔
یہ بھی پڑھیں:صوبے کے ایک لاکھ 35ہزار اساتذہ ریاضی، سائنس نہیں پڑھا سکتے،وزیرتعلیم
ریاضی میں طالبات کی کارکردگی طلبا کے مقابلے میں معمولی بہتر رہی، نجی اسکولوں کا اوسط نتیجہ سرکاری اسکولوں کی نسبت بہتر رہا تاہم وہ بھی دونوں مضامین میں 40 فیصد سے زائد نمبر نہیں لے پائے۔
صوبوں کی بات کی جائے تو سروے میں تمام صوبوں میں پنجاب کی کارکردگی باقی صوبوں سے بہتر رہی، تاہم وہاں بھی طلبہ دونوں مضامین میں 40 فیصد سے زائد نمبر نہیں لے پائے۔
مجموعی طور پر 78 سرکاری اور 75 نجی اسکولوں نے سروے میں شرکت کی۔
سروے میں شامل 50 میں سے صرف ایک طالبعلم دی گئی رقم "10 ملین، 20ہزار، 20 کو عددی شکل میں لکھ پایا۔
ہر دس میں ایک سے بھی کم طالبعلم اس بات کی سائنسی وجہ بیان کر پائے کہ ورزش کے دوران دل تیزی سے کیوں دھڑکتا ہے۔
مزید پڑھیں:سائنس کی کتابوں میں سائنس دشمنی
ان تشویشناک نتائج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر نصرت فاطمہ رضوی نے کہا کہ سائنس اور ریاضی کی تعلیم کو اساتذہ اور پالیسی سازوں کی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔
تحقیق کاروں کے مطابق طلبا کے بُرے نتائج میں متعدد عوامل مشترکہ طور پر کارفرما ہیں۔
ان عوامل میں اعلیٰ معیار کی تدریس، طالبعلم کی ماں کا گریجویٹ تک تعلیم یافتہ ہونا بہت اہم ہے جبکہ ماہرین کے مطابق باپ کا تعلیمی معیار اس حوالے سے کم اہمیت کا حامل دیکھا گیا، کلاس میں تدریس کے لیے ایک ہی زبان کا استعمال، نجی اسکول میں تعلیم حاصل کرنا اور پنجاب کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنا شامل ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ طلبہ نے زیادہ تجربہ کار اساتذہ کے بجائے نسبتاً نئے اساتذہ اور ایجوکیشن میں ڈگری یافتہ اساتذہ کے بجائے ایسے اساتذہ سے بہتر طور پر سیکھا جن کے پاس تعلیم کی باضابطہ ڈگری نہیں تھی۔
سروے کے دوران 589 اساتذہ کی کلاسز کا دورہ کیا گیا تاکہ معیار تدریس کو جانچا جا سکے، ہر 10 میں سے اوسطاً 9 اساتذہ کا طریقہ تدریس کمزور پایا گیا اور 10 میں سے ایک کا پڑھانے کا طریقہ اوسط درجے کا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کرنے والی پاکستانی خواتین
تحقیق کاروں کے مطابق کسی بھی استاد نے اچھے تدریسی طریقہ کار کا مظاہرہ نہیں کیا۔
تحقیقی مطالعے کی تفتیش کار ایسوسی ایٹ پروفیسر سعدیہ بھٹہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر کلاس رومز میں اساتذہ نے طلبا سے سوالات پوچھنے یا بتائے گئے تصور کو کسی سرگرمی کی مدد سے حقیقی طور پر طلبا کے سامنے پیش کرنے یا طلبہ کو سرگرمی کا حصہ بنانے کے بجائے کتاب میں دیے سبق کو پڑھانے اور دیے گئے الفاظ کے معانی سمجھانے میں وقت صرف کیا۔
اس مطالعے کے اہم ترین نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ کسی ایک زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا نے ان طلبہ کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جہاں تدریس کے لیے ایک سے زائد زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔
تحقیق کاروں کے مطابق اساتذہ کو پیشہ ورانہ تربیت کے مواقع فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ مضمون کے متعلق علم اور اپنے طریقہ تدریس کا جائزہ لینے کی صلاحیت کو بہتر بنا سکیں۔
آئی ای ڈی کی ڈاکٹر سعدیہ مظفر بھٹہ، ڈاکٹر نصرت فاطمہ رضوی، سہیل احمد، خدیجہ ندیم، نورین عمران، سبینہ خان اور میمونہ خان تحقیقاتی سروے پراجیکٹ کی ٹیم کا حصہ تھے۔