راولپنڈی: گستاخانہ مواد بھیجنے کا الزام ثابت ہونے پر خاتون کو سزائے موت
راولپنڈی کی عدالت نے ایک مسلمان خاتون کو واٹس ایپ کے ذریعے گستاخانہ مواد بھیجنے کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی۔
سیشن عدالت کی جاری سمری کے مطابق 26 سالہ خاتون کو مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر گستاخانہ مواد کو سوشل میڈیا ایپ واٹس ایپ اسٹیٹس کے طور پر پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل
اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ جب ایک دوست نے انہیں واٹس اسٹیٹس تبدیل کرنے کی تاکید کی تو انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے انہیں بھی وہ مواد بھیج دیا تھا۔
عدالت نے خاتون کو سزائے موت کا حکم دینے کے علاوہ 20 سال قید اور 2لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔
مجرمہ کے خلاف مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے درج کیا تھا اور اس میں توہین رسالت، توہین مذہب اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات شامل کی گئی تھیں۔
ایڈیشنل سیشن جج راولپنڈی نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت خاتون کو سزائے موت اور 50ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
اس کے علاوہ مقدمے میں شامل دفعہ 295-اے میں 10 سال اور 298 اے میں 3سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کے مشتبہ قاتل کا مقدمہ جووینائل قانون کے تحت چلانے کا حکم
عدالت نے سائبر کرائم ایکٹ کی دفعہ 11 میں 7 سال قید کی سزا کا حکم دیا۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں 80 سے زائد افراد کو جیل بھیجا جا چکا ہے جن میں سے نصف عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: راولپنڈی: توہین مذہب کے مجرم کو عمر قید کی سزا
گوکہ ان میں سے اکثر معاملات میں مسلمانوں نے دوسرے مسلمان فرد پر توہین مذہب کا الزام لگایا لیکن انسانی حقوق کارکنوں کے کارکنوں نے خبردار کیا کہ مذہبی اقلیتیں خصوصاً عیسائی اکثر کر ان الزامات کے گرداب میں پھنس جاتے ہیں حالانکہ ان پر یہ الزامات ذاتی رنجش کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں سیالکوٹ میں کام کرنے والے سری لنکن فیکٹری مینیجر کو توہین مذہب کا الزام لگانے کے بعد ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جلا دیا تھا۔