طالبان، خواتین کو عمومی زندگی سے محروم کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں طالبان رہنما خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد اور بڑے پیمانے پر صنفی تعصب پر مبنی ادارہ سازی کا نظام تشکیل دے رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خصوصی معیاری گروپ کی جانب سے پیر کو رپورٹ جاری کی گئی، یہ اقوام متحدہ کے نظام میں انسانی حقوق کے ماہرین کی ایک بڑی تنظیم ہے۔
گروپ کی سرکاری سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ٹوئٹ میں ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان رہنما 'صنفی تعصب اور تشدد پت مبنی نظام کے تحت خواتین اور لڑکیوں کو عمومی زندگی سے دور کر رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری 'خواتین کی ضروریات کے ردعمل میں انسانی امداد کے لیے لازمی اقدامات کرے'۔
ماہرین نے افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد متعدد مواقع پر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے اور خبردار کیا ہے کہ حالات پر فوری قابو پانے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی
ماہرین کا کہنا ہے کہ 'صنفی جانبداری اور نقصاندہ طریقہ کار پر مبنی یہ پالیسیاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے سزا ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ملک بھر میں منظم کوششوں کے ذریعے خواتین کو سماجی، اقتصادی اور معاشی شعبوں سے نکالنے پر ہم تشویش کا شکار ہیں'۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ 'نسلی، مذہبی یا ہزارہ، تاجک اور ہندوؤں سمیت دیگر لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے معاملات میں یہ تشویش مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ ان کا مختلف ہونا افغانستان میں ان کے لیے مزید خطرات کا سبب بن رہا ہے'۔
انہوں یہ مشاہدہ بھی کیا اس عمل سے خواتین اور لڑکیوں کے استحصال کا خطرہ پیدا ہوگا اور انہیں کم عمری میں جبری شادی، جنسی استحصال اور جبری مشقت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ برطرفی اور امتیازی پالیسیوں کا نفاذ خواتین کو ملازمت سے روکنے، عوامی مقامات پر مرد کے ساتھ جانے، خواتین کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں اکیلے سفر ممنوع قرار دینے اور اس کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کے لیے ڈریس کوڈ کے سختی سے نفاذ جیسے اقدامات کی لہر کے ذریعے کی جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی
ماہرین نے کہا کہ 'مزید یہ کہ انجمن، عوامی اور سیاسی امور میں خواتین کی آزادی کو محدود کردیا گیا ہے، یہ پالیسیاں خواتین کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہوئے انہیں مزید غربت کی جانب بڑھنے پر مجبور کر رہی ہیں'۔
ان کا مزید کہنا ہے اس عمل سے خاندان کی خواتین سربراہان شدید متاثر ہوئی ہیں، ملک میں انسانی بحران کے نتیجے میں ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔
ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے ثانوی تعلیم کے حق سے مسلسل انکار خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔
رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں خواتین اور لڑکیوں کی اکثریت کو رسوا کرتی ہیں، جنہیں ساتویں جماعت سے 12ویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے انہیں صنفی تعصب کی بنیاد پر اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین سے متعلق کیے گئے وعدے ’توڑنے‘ پر اقوام متحدہ کے سربراہ کی طالبان پر تنقید
ماہرین نے لکھا ہے کہ ’آج ہم شاہد ہیں ان اداروں اور میکانزم جو ان کی مدد اور تحفظ کے لیے قائم کیے گئے تھے وہاں سے خواتین اور لڑکیوں کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے'۔
وزرات امور خواتین کی بندش اور آزاد افغان انسانی حقوق کمیشن کے احاطے پر قبضے پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات 'خطرے سے دوچار خواتین اور لڑکیوں' پر سنگین اثرات مرتب کریں گے۔
ماہرین نے مزید کہا کہ 'صنفی بنیاد پر تشدد سے بچ جانے والوں کی مدد کرنے والے مختلف اہم اور بعض اوقات جان بچانے سے متعلق خدمات فراہم کرنے والے بدلے کے خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں'۔