گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی کی رعایت آئی ایم ایف سے مشکل مذاکرات سے حاصل کی، حماد اظہر
وفاقی وزیر حماد اظہر نے اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون سازی پر اپوزیشن کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ آف ڈائریکٹر کی تعیناتی وفاقی حکومت کرے گی اور یہ رعایت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مشکل مذاکرات سے حاصل کی۔
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ سردیوں میں ہمیں کراچی میں گیس کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کی بنیادی وجہ کراچی میں کوئی 1800 یا 1900 جنرل صنعتیں ہیں جو برآمدی نہیں ہیں اور سردیوں میں ان کو ایک ماہ یا ڈیڑھ ماہ کے لیے گیس بند کرکے وہ گھریلو صارفین کو دے دی جاتی ہے لیکن اس دفعہ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے لے لیا اور پھر تاریخوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران منی بجٹ، اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور
ان کا کہنا تھا کہ یہ تقریباً 100 ایم ایم سی ایف ٹی گیس ہے جو کراچی کے صارفین کو مل جائے تو خاصی بہتری آجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت میں کل پھر تاریخ ہے جہاں ہمارے وکیل پوری صورت حال سامنے رکھیں گے، کیونکہ حکومت کی اولین ترجیح گھریلو صارفین ہیں، جس کے بعد دیگر شعبے ہیں اور امید ہے عدالت سوئی سدرن گیس کی اپیل منظور کرتے ہوئے اسٹے ختم کرے گی اور اس سے کراچی میں بہتری آئے گی۔
اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون سازی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر اپوزیشن نے بحث کی متنازع بنانے کی کوشش کی گئی لیکن حقائق دیکھیں تو وہ مختلف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کے بعد یورپ، امریکا اور ساری دنیا میں مرکزی بینک جتنے آزاد ہیں اتنا پاکستان میں نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ جن ممالک میں اسٹیٹ بینک کی آزادی کو یقینی بنایا جاتا ہے وہاں افراط زر میں بھی کمی آتی ہے اور معاشی نمو بھی جاری رہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کا بل کابینہ سے منظور
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس قانون کے مطابق اسٹیٹ بینک کے بورڈ کا تعین وفاقی حکومت کرے گی اور بورڈ بینک کا گورنر ہٹا بھی سکتا ہے، گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی بھی وفاقی حکومت کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ تین یا 5 سال کی مدت پہلے بھی قانون میں موجود تھی جو پچھلے 50 سال سے ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بورڈ کی تعیناتی کا اختیار وفاقی حکومت کو دیا ہے یہ ایک ایسی رعایت ہے جو عالمی مالیاتی ادارے سے مشکل مذاکرات کے بعد حاصل کیا۔
حکومت نیول گالف کورس فیصلے پر عملدرآمد کی پابند ہے، فواد چوہدری
کابینہ اجلاس کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ سب سے پہلے اومیکرون کی صورت حال پر بریفنگ دی گئی اور کیسز کی تعداد 5 ہزار یومیہ تک پہنچ گئے ہیں یعنی 2 اعشاریہ 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں آئی سی یو میں داخلے میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا بل سینیٹ میں جلد پیش کرکے منظور کروادیں گے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کابینہ نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیوں میں ارکان کی تعیناتی میں مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو، یعنی جو اراکین متعلقہ کمیٹی سے متعلق کاروبار سے منسلک ہوں وہ اس کمیٹی کا حصہ نہ ہوں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے افراد جو کمیونیکشین اور آئی ٹی کا کام کرنے والے لوگ آئی ٹی کی کمیٹیوں میں آتے ہیں جس سے مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی سالانہ رپورٹ پیش کی گئی جو 24 برس میں پہلی مرتبہ وقت پر پیش کی گئی ہے، اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت 39 ہزار 772 میگاواٹ کی ہے اور گردشی قرضہ 2 ہزار 280 سے اوپر پر کھڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیول گالف کورس پر فیصلہ تھا تو جب تک عدالت اپنے فیصلے کو معطل نہیں کرتی اس وقت تک حکومت عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کروانے کی پابند ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی سیلنگ کلب گرانے کا حکم دے دیا
خیال رہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 7 جنوری کو نیوی سیلنگ کلب کو تین ہفتوں میں گرانے کا حکم دیا تھا جبکہ عدالت نے پاکستان نیول فارمز کے لیے جاری کیے گئے این او سی کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔
45 صفحات پر مشتمل فیصلے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کو نیول فارم قبضے میں لینے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیوی نے راول جھیل کے کنارے پر واقع زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے جو کہ نیشنل پارک قرار دیا گیا علاقہ ہے۔
عدالت نے نیول فارمز کی اراضی کو سی ڈی اے کی تحویل میں دینے کا فیصلہ سنایا تھا جبکہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 11 جنوری کو نیوی گالف کلب کو غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا 8 ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ 8 ہزار ایکڑ زمین مارگلہ نیشنل پارک کا حصہ سمجھی جائے۔