عمر عطا بندیال باضابطہ طور پر ملک کے اگلے چیف جسٹس مقرر
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس عمر بندیال کو ملک کے چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر بندیال یکم فروری کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کے عہدے سے رخصت ہونے کے بعد 2 فروری 2022 کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، ان کا تقرر 21 دسمبر 2019 کو عدالت عظمیٰ میں کیا گیا تھا۔
آئین کے آرٹیکل 177 کے مطابق آرٹیکل 175 (3) میں دیئے گئے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس عمر عطا بندیال کو چیف کے عہدے پر تعینات کیا۔
مزید پڑھیں: جسٹس عمرعطاء بندیال نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا
وزارت قانون و انصاف کی جانب سے 17 جنوری 2022 کو جاری کردہ نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ جسٹس عمر بندیال بطور چیف جسٹس 2 فروری 2022 سے ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد جسٹس عمر بندیال کی میز پر 51 ہزار 766 مقدمات فیصلے کے منتظر ہوں گے، پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں اور ضلعی عدالتوں میں کم و بیش 21 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر 2023 تک عہدے پر خدمات انجام دیں گے جس کے بعد یہ عہدہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنبھالیں گے۔
سنیارٹی اسکیم کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسی 25 اکتوبر 2024 تک چیف جسٹس رہیں گے جس کے بعد 282 ایام کے لیے جسٹس اعجازالاحسن عہدے پر تعینات ہوں گے، بعدازاں 4 اگست 2025 سے جسٹس منصور علی شاہ عہدہ سنبھالیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس عمر عطابندیال کی بطور چیف جسٹس منظوری دے دی
توقعات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ 27 نومبر 2027 تک چیف جسٹس کی ذمہ داریاں انجام دیں گے اور 14 دسمبر 2028 تک ان کے جانشین جسٹس منیب اختر ہوں گے جس کے بعد 22 جنوری 2030 تک جسٹس یحیٰ خان آفریدی کو چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔
نئے چیف جسٹس آف پاکستان
جسٹس عمر عطا بندیال 17 ستمبر 1958 کو لاہور میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کوہاٹ، راولپنڈی، پشاور، اور لاہور سے حاصل کی، جبکہ کولمبیا یونیورسٹی سے معیشت میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔
بعد ازاں انہوں نے کیمبرج سے لا ٹرائپوس ڈگری حاصل کی اور لندن کے معروف لنکنز ان میں بطور برسٹر خدمات انجام دیں۔
1983 میں آپ بطور ایڈوکیٹ لاہور ہائی کورٹ کی فہرست میں شامل ہوئے اور کچھ سالوں بعد بطور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان خدمات انجام دیں۔
لاہور میں اپنی پریکٹس کے دوراب جسٹس بندیال نے عموماً کمرشل بینکنگ، ٹیکس اینڈ پراپرٹی کے معلامات حل کیے، جسٹس 1993 کے بعد جسٹس عہدے پر فائز ہونے تک آپ نے بین الاقوامی تجارتی تنازعات کو بھی سنبھالا۔
مزید پڑھیں: قائم مقام چیف جسٹس کی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے طویل ملاقات
جسٹس عمر بندیال سپریم کورٹ اور لندن اور پیرس کی متعدد بین الاقوامی عدالتوں میں بطور ثالثی بھی پیش ہوچکے ہیں۔
جسٹس عمر بندیال کو 4 دسمبر 2004 کو لاہور ہائی کورٹ کے جج طور پر مقرر کیا گیا تھا ان کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نومبر 2007 کے پروویژنل کونسٹی ٹیوشن آرڈر (پی سی او) کے حلف لینے سے انکار کردیا تھا، اس وقت 3 نومبر 2007 کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔
تاہم عدالت کی بحالی کے سلسلے میں وکلا تحریک کے نتیجے میں انہیں جج کے عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس عمر بندیال نے دو سال کے لیے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خدمات انجام دیں جبکہ جون 2014 میں ان کا تقرر سپریم کورٹ میں کردیا گیا۔
اعلیٰ عدلیہ میں اپنے کریئر کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے سرکاری اور نجی قانون کے مسائل پر کئی اہم فیصلے سنائے، ان میں دیوانی اور تجارتی تنازعات، آئینی حقوق اور مفاد عامہ کے معاملات شامل ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے 1987 تک پنجاب یونیورسٹی لا کالج لاہور میں کنٹریکٹ لا اور ٹارٹس لا بھی پڑھایا اور لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس کی گریجویٹ اسٹڈیز کمیٹی کے رکن رہے۔
مواقع اور چیلنجز
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر احسن بھون نے ڈان کو بتایا کہ امید ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال ایک دیانتدار شخص اور ایک قابل جج ہونے کے ناطے عدلیہ کی بہتری کے لیے تمام تر رکاوٹوں کو ختم کرنے اور پاکستان میں انصاف کی ہموار فراہمی کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گے۔
مزید پڑھیں: جسٹس گلزار احمد نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
صدر احسن بھون کا کہنا تھا کہ بار کا ماننا ہے کہ نرم گو جسٹس عمر بندیال کے دور کے دوران بینچ اور بار کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے اور آنے والے ججز ان تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
سندھ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر صلاح الدین احمد کے مطابق جسٹس عمر بندیال نے بطور انصاف پسند اپنی عزت بنائی ہے جو اپنے فیصلوں میں مثالی اقدار، کارروائی کی اہمیت اور تمام تر عدالتی معیار کے حوالے سے بہت احتیاطی طور پر سوچتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بطور چیف جسٹس ان کا تقرر خوش آئند ہے لیکن ان کے انصاف کا صحیح انداز تب سامنے آئے گا کہ وہ کس طرح چیف جسٹس کے عہدے کا اضافی دباؤ برداشت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہوگی کہ عدالتی عمل کو کس طرح ٹھیک کیا جائے اور اس میں مجموعی طور پر اصلاحات کی جائیں تاکہ قانونی چارہ جوئی کو سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں انصاف مل سکے۔
دریں اثنا ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ جسٹس عمر عطا بندیال اس دور میں سپریم کورٹ کے وارث ہوسکتے تھے جب افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے۔